سنن النسائي - حدیث 2619

كِتَابُ الزَّكَاةِ شِرَاءُ الصَّدَقَةِ حسن الإسناد أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَيَزِيدُ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَتَّابَ بْنَ أَسِيدٍ أَنْ يَخْرُصَ الْعِنَبَ فَتُؤَدَّى زَكَاتُهُ زَبِيبًا كَمَا تُؤَدَّى زَكَاةُ النَّخْلِ تَمْرًا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2619

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل صدقے کا مال خریدنا حضرت سعید بن مسیب سے منقول ہے کہ رسول اللہﷺ نے (مکہ مکرمہ کے گورنر) حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ انگوروں کی فصل کا اندازہ لگا کر ان کی زکاۃ کشمش کی صورت میں ادا کی جائے جس طرح کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں (چھوہاروں) کی صورت میں ادا کی جاتی ہے۔
تشریح : زکاۃ کی بحث تو پیچھے گزر چکی ہے کہ عشر وغیرہ اس صورت میں وصول کیا جائے گا جس صورت میں اس کا ذخیرہ کیا جا سکے مگر یہاں بحث طلب امر یہ ہے کہ اس حدیث کا باب سے کیا تعلق ہے، جبکہ اس میں صدقہ خریدنے کا کوئی ذکر نہیں؟ کہا جا سکتا ہے کہ جب کا شتکار نے انگور رکھ کر کشمش کی صورت میں عشر دیا تو گویا اس نے صدقے کے انگوروں کو کشمش سے خرید لیا۔ گویا اپنا صدقہ خریدنا جائز ہوگیا۔ اس صورت میں اوپر والی روایات میں اپنا صدقہ خریدنے سے روکنا تنزیہ اور احتیاط کے طور پر ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مگر یہ نرالا استنباط ہی ہے۔ دینے والے نے تو صدقے ہی کے انگوروں کو خشک کر کے کشمش بنا کر دیا۔ اپنے مال سے بدلا نہیں ہے کہ اس پر بیچنے کے معنی کسی بھی طرح صادق آسکیں۔ کشمش ہی سے صدقے کی ابتدا ہوئی۔ ویسے یہ روایت مرسل ہے۔ حضرت سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے یہ روایت کس صحابی سے سنی ہے۔ اس سے روایت کی حیثیت کم ہو جاتی اور ضعیف قرار پاتی ہے، تاہم یہ مسئلہ دیگر صحیح روایات سے بھی ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۳/ ۲۵۹-۲۶۶) زکاۃ کی بحث تو پیچھے گزر چکی ہے کہ عشر وغیرہ اس صورت میں وصول کیا جائے گا جس صورت میں اس کا ذخیرہ کیا جا سکے مگر یہاں بحث طلب امر یہ ہے کہ اس حدیث کا باب سے کیا تعلق ہے، جبکہ اس میں صدقہ خریدنے کا کوئی ذکر نہیں؟ کہا جا سکتا ہے کہ جب کا شتکار نے انگور رکھ کر کشمش کی صورت میں عشر دیا تو گویا اس نے صدقے کے انگوروں کو کشمش سے خرید لیا۔ گویا اپنا صدقہ خریدنا جائز ہوگیا۔ اس صورت میں اوپر والی روایات میں اپنا صدقہ خریدنے سے روکنا تنزیہ اور احتیاط کے طور پر ہوگا۔ واللہ اعلم۔ مگر یہ نرالا استنباط ہی ہے۔ دینے والے نے تو صدقے ہی کے انگوروں کو خشک کر کے کشمش بنا کر دیا۔ اپنے مال سے بدلا نہیں ہے کہ اس پر بیچنے کے معنی کسی بھی طرح صادق آسکیں۔ کشمش ہی سے صدقے کی ابتدا ہوئی۔ ویسے یہ روایت مرسل ہے۔ حضرت سعید بن مسیب تابعی ہیں۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے یہ روایت کس صحابی سے سنی ہے۔ اس سے روایت کی حیثیت کم ہو جاتی اور ضعیف قرار پاتی ہے، تاہم یہ مسئلہ دیگر صحیح روایات سے بھی ثابت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۳/ ۲۵۹-۲۶۶)