كِتَابُ الزَّكَاةِ شِرَاءُ الصَّدَقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ أَنْبَأَنَا حُجَيْنٌ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَوَجَدَهَا تُبَاعُ بَعْدَ ذَلِكَ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهُ ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَهُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
صدقے کا مال خریدنا
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستے میں صدقہ کیا۔ کچھ عرصے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ وہ گھوڑا فروخت کیا جا رہا ہے تو انھوں نے ارادہ فرمایا کہ میں ہی اسے خرید لوں، پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اس بارے میں آپ سے مشورہ طلب کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اپنا کیا ہوا صدقہ دوبارہ نہ لے۔‘‘
تشریح :
اپنا کیا ہوا صدقہ اپنے اختیار سے، مثلاً: خرید کر یا رجوع کر کے تو واپس نہیں لے سکتا، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر اس کے پاس آجائے، مثلاً: جسے صدقہ دیا تھا وہ فوت ہوگیا اور یہ صدقہ کرنے والا اس کا وارث بنتا ہے اور وراثت میں وہی صدقہ اسے واپس مل جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: ۱۱۴۹) بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط بھی کیا ہے: ’’جس لونڈی کو آزاد کرے، اس سے پھر نکاح نہ کرے کیونکہ یہ بھی صدقے میں رجوع ہی کی صورت ہے۔‘‘ حالانکہ یہ تو احسان پر احسان ہے اور حدیث صحیح میں اسے دگنے ثواب کا سبب بھی قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری:، العلم، حدیث: ۹۷) خود رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمایا، لہٰذا یہ استنباط درست نہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، النکاح، حدیث: ۵۰۸۶، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۳۶۵)
اپنا کیا ہوا صدقہ اپنے اختیار سے، مثلاً: خرید کر یا رجوع کر کے تو واپس نہیں لے سکتا، البتہ اگر غیر اختیاری طور پر اس کے پاس آجائے، مثلاً: جسے صدقہ دیا تھا وہ فوت ہوگیا اور یہ صدقہ کرنے والا اس کا وارث بنتا ہے اور وراثت میں وہی صدقہ اسے واپس مل جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، الصیام، حدیث: ۱۱۴۹) بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استنباط بھی کیا ہے: ’’جس لونڈی کو آزاد کرے، اس سے پھر نکاح نہ کرے کیونکہ یہ بھی صدقے میں رجوع ہی کی صورت ہے۔‘‘ حالانکہ یہ تو احسان پر احسان ہے اور حدیث صحیح میں اسے دگنے ثواب کا سبب بھی قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری:، العلم، حدیث: ۹۷) خود رسول اللہﷺ نے حضرت صفیہؓ کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمایا، لہٰذا یہ استنباط درست نہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، النکاح، حدیث: ۵۰۸۶، وصحیح مسلم، النکاح، حدیث: ۱۳۶۵)