سنن النسائي - حدیث 2615

كِتَابُ الزَّكَاةِ إِذَا تَحَوَّلَتْ الصَّدَقَةُ صحيح ، دون قوله : " حر " و المحفوظ " عبد " أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَتُعْتِقَهَا وَإِنَّهُمْ اشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ وَخُيِّرَتْ حِينَ أُعْتِقَتْ وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَقِيلَ هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ فَقَالَ هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2615

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل جب صدقے کی حیثیت بدل جائے (تو حکم بھی بدل جائے گا) حضرت عائشہؓ سے منقول ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ بریرہؓ کو خرید کر آزاد کر دوں لیکن اس کے مالکوں نے اس کے وَلَا کی شرط لگا لی۔ میں نے یہ بات رسول اللہﷺ سے ذکر کی تو آپ نے فرمایا: ’’خرید کر آزاد کر دے۔ وَلَا اسی کا حق ہے جو آزاد کرے۔‘‘ (اسی طرح) جب وہ آزاد ہوئی تو اسے (خاوند کے پاس رہنے یا نہ رہنے کا) اختیار دیا گیا۔ (اسی طرح) رسول اللہﷺ کے پاس گوشت لایا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اس (گوشت) میں سے ہے جو بریرہؓ پر صدقہ کیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’وہ اس کے لیے صدقہ ہے، ہمارے لیے ہدیہ (تحفہ) ہے۔‘‘ (یاد رہے کہ) حضرت بریرہؓ کا خاوند آزاد تھا۔
تشریح : (۱) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (۲) ’’وَلَا‘‘ سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (۳) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (۴) ’’گوشت لایا گیا۔‘‘ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (۵) ’’آزاد تھا۔‘‘ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۵۲۸۲، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: ۱۵۰۴) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (۶) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۲۵۸۳) (۱) حضرت بریرہؓ کسی اور خاندان کی لونڈی تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے پاس خدمت کے لیے آتی جاتی رہتی تھیں۔ انھوں نے اپنے مالکوں سے آزادی کا معاہدہ کیا کہ میں قسط وار اپنی قیمت خود ادا کر دوں گی، مجھے آزاد کر دو۔ وہ مان گئے۔ حضرت عائشہؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے پیش کش کی کہ میں پوری قیمت دے کر ابھی خرید لیتی ہوں اور آزاد کر دیتی ہوں۔ مالک راضی ہوگئے مگر کہنے لگے: وَلَا کا حق ہمارا ہوگا، حالانکہ مولیٰ وہی ہوتا ہے جو آزاد کرے۔ حضرت عائشہؓ نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا تو اپ نے مذکورہ جواب ارشاد فرمایا۔ (۲) ’’وَلَا‘‘ سے مراد وہ حق ہے جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام پر ہوتا ہے، مثلاً: وہ اس کا مولیٰ کہلاتا ہے۔ اگر غلام فوت ہو جائے اور اس کا کوئی نسبی وارث نہ ہو تو مالک کو وراثت ملتی ہے، وغیرہ۔ (۳) اگر منکوحہ لونڈی آزاد ہو جائے تو آزادی کے بعد اسے اختیار ہوتا ہے کہ چاہے تو سابقہ خاوند سے نکاح قائم رکھے، چاہے تو نکاح فسخ کر دے۔ لیکن جمہور اہل علم کے نزدیک یہ اختیار تب ہے اگر اس کا خاوند غلام ہو۔ اگر وہ آزاد ہو تو عورت کو باوجود آزاد ہونے کے نکاح ختم کرنے کا اختیار نہیں۔ حضرت بریرہؓ کے خاوند غلام تھے، نام ان کا مغیث تھا۔ البتہ احناف کے نزدیک خاوند آزاد ہو یا غلام، آزاد ہونے والی کو نکاح ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ (۴) ’’گوشت لایا گیا۔‘‘ یہ گوشت صدقے کا تھا۔ کسی نے حضرت بریرہؓ کو بھیجا تھا۔ انھوں نے کچھ گوشت بطور تحفہ حضرت عائشہؓ کے پاس بھیج دیا۔ ظاہر ہے گوشت جس کو صدقے میں دے دیا جائے اس کی ملک ہوگیا، اب وہ جسے صدقے کے طور پر دے، اس کے لیے صدقہ ہے۔ جسے تحفے کے طور پر دے، اس کے لیے تحفہ ہے۔ اسی لیے نبیﷺ نے وہ گوشت تناول فرمایا۔ (۵) ’’آزاد تھا۔‘‘ دوسری روایات میں صراحت ہے کہ یہ حضرت اسود کا قول ہے، نہ کہ حضرت عائشہؓ کا۔ اور اسود تابعی ہیں۔ دوسری روایات میں حضرت عائشہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم کا صریح فرمان ہے کہ بریرہ کا خاوند غلام تھا۔ (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۵۲۸۲، وصحیح مسلم، العتق، حدیث: ۱۵۰۴) اگر وہ غلام نہ ہوتا تو اسے اختیار نہ دیا جاتا کیونکہ عورت آزاد ہونے کے باوجود خاوند سے بلند رتبہ نہیں ہوتی۔ (۶) تفصیلی روایات میں صراحت ہے کہ حضرت بریرہؓ نے باوجود حضرت مغیث کی منت سماجت کے نکاح ختم کر دیا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الطلاق، حدیث: ۲۵۸۳)