سنن النسائي - حدیث 2610

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّدَقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ قَالَ لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ وَالْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ اسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ فَقَالَ لَهُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ حَتَّى أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2610

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل نبی ﷺ کی آل کو صدقات جمع کرنے پر مقرر کرنا؟ حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ میرے والد ربیعہ بن حارث نے مجھے اور حضرت فضل بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم رسول اللہﷺ کے پاس جاؤ اور آپ سے عرض کرو کہ ہمیں بھی صدقات اکٹھے کرنے کی خدمت پر مقرر فرمائیں۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ رسول اللہﷺ تم میں سے کسی کو صدقات پر مقرر نہیں فرمائیں گے۔ میں اور فضل بن عباس پھر بھی چل پڑے اور رسول اللہﷺ کے پاس پہنچ کر عرض کیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ زکاۃ و صدقات لوگوں کا میل کچیل ہیں، اس لیے یہ حضرت محمد(ﷺ) اور آل محمدﷺ کے لیے حلال نہیں۔‘‘
تشریح : (۱) آل نبیﷺ صدقات جمع کرنے کی خدمت تو سر انجام دے سکتے ہیں مگر اس کام کی اجرت نہیں لے سکتے کیونکہ اجرت بھی تو زکاۃ و صدقات ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عبدالمطلب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد چونکہ اجرت ہی تھا، لہٰذا آپ نے انھیں مقرر نہ فرمایا۔ (۲) صدقات جمع کرنے کی اجرت حقیقتاً صدقہ نہیں ہے، اس لیے اغنیاء بھی یہ خدمت سر انجام دے کر اجرت لے سکتے ہیں مگر آل محمدﷺ کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ایسی چیز بھی نہ لیں جس میں صدقے کا شبہ بھی ہو اور اجرت صدقات میں صدقے کا شبہ تو ہے کیونکہ وہ صدقات کا حصہ ہے۔ (۳) رفعت شان کے علاوہ آل محمدﷺ کے لیے صدقات کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دعوائے نبوت کا مقصد اپنے خاندان کے لیے مال جمع کرنا ہے۔ نعوذ باللہ (۴) زکاۃ و صدقات چونکہ مال کو پاک کرتے ہیں، جس طرح پانی جسم کو پاک کرتا ہے، لہذا زکاۃ وصدقات کی حیثیت اس پانی کی سی ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو دھو کر صاف کیا گیا ہو، اس لیے اسے ’’لوگوں کا میل کچیل‘‘ کہا گیا۔ اختیاری حالت میں ماء مستعمل کو لینا کوئی پسند نہیں کرتا، اس لیے زکاۃ وصدقات بھی مجبور ومضطر لوگوں ہی کے لیے جائز ہیں۔ (۵) فرض دصقات تو نبیﷺ پر اور آپ کی آل پر قطعاً حرام ہیں، البتہ نفل صدقات کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ وہ آل محمد کے لیے جائز ہیں، البتہ رسول اللہﷺ کی مقدس ہستی کے لیے نفل صدقات بھی حرام ہیں کہ آپ کی شان انتہائی بلند ہے۔ (۶) آل نبیﷺ سے مراد امام ابوحنیفہ اور امام مالکL کے نزدیک صرف بنو ہاشم ہیں اور امام شافعی وغیرہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں خاندان مراد لیے ہیں۔ بنو ہاشم سے مراد حضرت علی، عقیل، جعفر، عباس اور حارث رضی اللہ عنہم کی نسل ہیں۔ (۱) آل نبیﷺ صدقات جمع کرنے کی خدمت تو سر انجام دے سکتے ہیں مگر اس کام کی اجرت نہیں لے سکتے کیونکہ اجرت بھی تو زکاۃ و صدقات ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عبدالمطلب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد چونکہ اجرت ہی تھا، لہٰذا آپ نے انھیں مقرر نہ فرمایا۔ (۲) صدقات جمع کرنے کی اجرت حقیقتاً صدقہ نہیں ہے، اس لیے اغنیاء بھی یہ خدمت سر انجام دے کر اجرت لے سکتے ہیں مگر آل محمدﷺ کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ایسی چیز بھی نہ لیں جس میں صدقے کا شبہ بھی ہو اور اجرت صدقات میں صدقے کا شبہ تو ہے کیونکہ وہ صدقات کا حصہ ہے۔ (۳) رفعت شان کے علاوہ آل محمدﷺ کے لیے صدقات کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دعوائے نبوت کا مقصد اپنے خاندان کے لیے مال جمع کرنا ہے۔ نعوذ باللہ (۴) زکاۃ و صدقات چونکہ مال کو پاک کرتے ہیں، جس طرح پانی جسم کو پاک کرتا ہے، لہذا زکاۃ وصدقات کی حیثیت اس پانی کی سی ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو دھو کر صاف کیا گیا ہو، اس لیے اسے ’’لوگوں کا میل کچیل‘‘ کہا گیا۔ اختیاری حالت میں ماء مستعمل کو لینا کوئی پسند نہیں کرتا، اس لیے زکاۃ وصدقات بھی مجبور ومضطر لوگوں ہی کے لیے جائز ہیں۔ (۵) فرض دصقات تو نبیﷺ پر اور آپ کی آل پر قطعاً حرام ہیں، البتہ نفل صدقات کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ وہ آل محمد کے لیے جائز ہیں، البتہ رسول اللہﷺ کی مقدس ہستی کے لیے نفل صدقات بھی حرام ہیں کہ آپ کی شان انتہائی بلند ہے۔ (۶) آل نبیﷺ سے مراد امام ابوحنیفہ اور امام مالکL کے نزدیک صرف بنو ہاشم ہیں اور امام شافعی وغیرہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں خاندان مراد لیے ہیں۔ بنو ہاشم سے مراد حضرت علی، عقیل، جعفر، عباس اور حارث رضی اللہ عنہم کی نسل ہیں۔