سنن النسائي - حدیث 2606

كِتَابُ الزَّكَاةِ مَنْ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ صحيح أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ حُوَيْطِبِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّعْدِيِّ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ الشَّامِ فَقَالَ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَعْمَلُ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ الْمُسْلِمِينَ فَتُعْطَى عَلَيْهِ عُمَالَةً فَلَا تَقْبَلُهَا قَالَ أَجَلْ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنِّي أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْمَالَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي وَإِنَّهُ أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ لَهُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ مَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذَا الْمَالِ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ فَخُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2606

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل جسے اللہ تعالیٰ مانگے بغیر کوئی مال عطا فرمائے؟ حضرت عبداللہ بن سعدی سے روایت ہے کہ مین علاقہ شام سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھوں نے فرمایا: مجھے بتایا گیا ہے کہ تم مسلمانوں کے کام (سرکاری خدمات) سر انجام دیتے ہو اور پھر جب تمہیں معاوضہ دیا جاتا ہے تو تم قبول نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! میرے پاس بہت سے گھوڑے اور غلام ہیں۔ میں مال دار ہوں اور چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (رسول اللہﷺ کے دور میں) میں نے بھی ایسا ہی کرنا چاہا تھا جس طرح تو نے کرنا چاہا ہے کہ رسول اللہﷺ مجھے مال وغیرہ (بصورت معاوضہ) عطا فرماتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ کسی ایسے شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ ایک دفعہ آپ نے مجھے کچھ مال عطا فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ یہ ایسے شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ مہتاج ہو، تو آپ نے فرمایا: ’۔جو مال تجھے اللہ تعالیٰ تیرے مانگے اور لالچ و طمع کے بغیر دے، اسے لے لیا کر، پھر چاہے تو اپنے پاس رکھ، چاہے صدقہ کر دے۔ اور جو مال اس طرح اپنے آپ نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’اللہ تعالیٰ دے۔‘‘ انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، خواہ ظاہراً کسی آدمی کے ہاتھوں ملے کیونکہ ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ دینے والے کے دل میں دینے کا خیال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جن صلاحیتوں کی وجہ سے مال ملتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہیں۔ حساب بھی اللہ تعالیٰ ہی لے گا۔ (۲) ان احادیث میں تنخواہ اور معاوضے کا ذکر ہے۔ تحفے اور صدقے میں بھی یہی اصول ہے کہ اگر بغیر مانگے حاصل ہو تو انکار نہیں کرنا چاہیے، البتہ صدقے کی صورت میں مستحق زکاۃ ہونا ضروری ہے۔ (۳) تحفے کا بدلہ دینا چاہیے۔ (۱) ’’اللہ تعالیٰ دے۔‘‘ انسان کو جو کچھ بھی میسر ہے، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، خواہ ظاہراً کسی آدمی کے ہاتھوں ملے کیونکہ ہر چیز کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے۔ دینے والے کے دل میں دینے کا خیال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ جن صلاحیتوں کی وجہ سے مال ملتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہیں۔ حساب بھی اللہ تعالیٰ ہی لے گا۔ (۲) ان احادیث میں تنخواہ اور معاوضے کا ذکر ہے۔ تحفے اور صدقے میں بھی یہی اصول ہے کہ اگر بغیر مانگے حاصل ہو تو انکار نہیں کرنا چاہیے، البتہ صدقے کی صورت میں مستحق زکاۃ ہونا ضروری ہے۔ (۳) تحفے کا بدلہ دینا چاہیے۔