سنن النسائي - حدیث 2604

كِتَابُ الزَّكَاةِ مَسْأَلَةُ الرَّجُلِ فِي أَمْرٍ لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ صحيح أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا حَكِيمُ إِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى قَالَ حَكِيمٌ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا بِشَيْءٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2604

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل ایسی چیز کا سوال کرنا جس کے بغیر چارہ نہ ہو حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے کچھ مانگا۔ آپ نے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ پھر فرمایا: ’’اے حکیم! بلاشبہ یہ مال شیریں (چیز کی طرح اچھا لگتا) ہے لیکن جو شخص اسے بے نیازی سے حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی۔ اور جو لالچ کے ساتھ حاصل کرے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں آپ (کے اس فرمان) کے بعد کبھی کسی سے کچھ نہ لوں گا حتیٰ کہ میں دنیا چھوڑ جاؤں۔
تشریح : حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: ’’اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری، الزکاۃ، حدیث: ۱۴۷۲) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔ حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ اس قسم وعہد پر اس قدر پختہ رہے کہ بعد میں خلفائے راشدین انھیں بیت المال سے ان کا وظیفہ دیتے تو اسے بھی قبول نہ فرماتے۔ فاروق اعظم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر فرمایا تھا: ’’اے مسلمانوں (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کی جماعت! تم گواہ رہو کہ میں حکیم کو ان کا حق دیتا ہوں لیکن وہ اپنا حق لینے سے انکار کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح البخاری، الزکاۃ، حدیث: ۱۴۷۲) اسی حال میں خالق حقیقی سے جاملے۔