سنن النسائي - حدیث 2596

كِتَابُ الزَّكَاةِ مَنْ الْمُلْحِفُ حسن صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ وَقَعَدْتُ فَاسْتَقْبَلَنِي وَقَالَ مَنْ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ اسْتَكْفَى كَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ فَقُلْتُ نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2596

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل اصرار کے ساتھ مانگنے والا کون ہے؟ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میری والدہ نے رسول اللہﷺ کے پاس بھیجا۔ میں آپ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ آپ نے اپنا چہرہ انور میری طرف فرمایا اور گویا ہوئے: ’’جو شخص اپنے آپ کو مستغنی ظاہر کرے، اللہ تعالیٰ اسے غنی فرما دیتا ہے۔ اور جو شخص سوال سے پرہیز کرے، اللہ تعالیٰ اسے سوال سے بچا لیتا ہے۔ اور جو شخص صرف کفایت کا طالب ہو، اللہ تعالیٰ اسے کفایت فرماتا ہے۔ اور جو شخص ایک اوقیہ (چالیس درہم) کی مالیت والی چیز کے ہوتے ہوئے مانگے تو گویا وہ اصرار کے ساتھ مانگ رہا ہے۔‘‘ (ابو سعید نے فرمایا:) میں نے (دل میں) کہا کہ میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیے سے زیادہ قیمتی ہے، لہٰذا میں آپ سے مانگے بغیر واپس آگیا۔
تشریح : (۱) ’’بھیجا‘‘ کوئی چیز مانگنے کے لیے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے۔ (۲) ’’مستغنی ظاہر کرے۔‘‘ یعنی باوجود فقیر ہونے کے اپنے فقر کا اظہار نہ کرے۔ (۳) ’’کفایت کا طالب ہو۔‘‘ یعنی وہ حریص نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق طلب کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ سے کفایت کی دعا کرے۔ (۴) یاقوتہ ان کی اونٹنی کا نام تھا۔ (۱) ’’بھیجا‘‘ کوئی چیز مانگنے کے لیے جیسا کہ حدیث کے آخر سے معلوم ہوتا ہے۔ (۲) ’’مستغنی ظاہر کرے۔‘‘ یعنی باوجود فقیر ہونے کے اپنے فقر کا اظہار نہ کرے۔ (۳) ’’کفایت کا طالب ہو۔‘‘ یعنی وہ حریص نہیں بلکہ ضرورت کے مطابق طلب کرتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ سے کفایت کی دعا کرے۔ (۴) یاقوتہ ان کی اونٹنی کا نام تھا۔