سنن النسائي - حدیث 2590

كِتَابُ الزَّكَاةِ الِاسْتِعْفَافُ عَنْ الْمَسْأَلَةِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا مَعْنٌ قَالَ أَنْبَأَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَضْلِهِ فَيَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2590

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل مانگنے سے پرہیز کرنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے ایک شخص اپنی رسی پکڑے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے (اور اسے بیچ کر گزارا کرے) اس بات سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نواز رکھا ہے اور اس سے جا کر مانگے، پھر وہ اسے دے یا نہ دے۔‘‘
تشریح : ’’اپنے فضل‘‘ قرآن وحدیث میں عموماً فضل سے مراد دنیوی رزق ہوتا ہے اور رحمت سے مراد اخروی ثواب۔ کسی آدمی سے دنیوی چیز ہی مانگی جا سکتی ہے۔ ’’اپنے فضل‘‘ قرآن وحدیث میں عموماً فضل سے مراد دنیوی رزق ہوتا ہے اور رحمت سے مراد اخروی ثواب۔ کسی آدمی سے دنیوی چیز ہی مانگی جا سکتی ہے۔