كِتَابُ الزَّكَاةِ الصَّدَقَةُ عَلَى الْيَتِيمِ صحيح أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي هِلَالٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ فَقَالَ إِنَّمَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةٍ وَذَكَرَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَقَالَ رَجُلٌ أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ قَالَ وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ الرُّحَضَاءَ وَقَالَ أَشَاهِدٌ السَّائِلُ إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةُ الْخَضِرِ فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلْتَ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ ثُمَّ بَالَتْ ثُمَّ رَتَعَتْ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ إِنْ أَعْطَى مِنْهُ الْيَتِيمَ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَإِنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
یتیم کو صدقہ دینا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا ڈر ہے کہ میرے بعد تمہارے لیے دنیا کی زیب وزینت عام کر دی جائے گی۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا: کیا خیر بھی شر کو لاتا ہے؟ رسول اللہﷺ خاموش ہوگئے۔ اس شخص سے کہا گیا کہ کیا بات ہے کہ تو رسول اللہﷺ سے بات کر رہا ہے اور رسول اللہﷺ تجھ سے بات نہیں کر رہے ہیں؟ پھر ہمیں اندازہ ہوا کہ رسول اللہﷺ پر وحی اتر رہی ہے۔ حالت وحی ختم ہوئی تو آپ نے پسینہ پونچھتے ہوئے فرمایا: ’’کیا وہ شخص موجود ہے جس نے پوچھا تھا؟ واقعتا خیر شر کو نہیں لاتا مگر موسم بہار کا اگایا ہوا سبزہ بھی کبھی جانور کو مار دیتا ہے یا قریب المرگ کر دیتا ہے۔ مگر وہ جانور جو چارہ کھائے حتیٰ کہ جب اس کی کوکھیں ابھر جائیں (اس کا پیٹ بھر جائے) تو وہ عین سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھ جائے (جگالی کرے) گوبر کرے، پیشاب کرے، پھر (جب بھوک لگے تو) چرنے لگے۔ یقینا یہ مال سبز اور میٹھا ہے۔ بلا شبہ یہ مومن کا اچھا ساتھی ہے بشرطیکہ وہ اس سے یتیم، مسکین اور مسافر کو دے۔ جو شخص اس مال کو ناحق لیتا ہے، وہ اس (بیماری) شخص کی طرح ہے جو کھاتا رہتا ہے، مگر سیر نہیں ہوتا۔ اور یہ مال قیامت کے دن اس شخص کے خلاف گواہی دے گا۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’مجھے تو اس بات کا ڈر ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے فقر کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: مجھے فقر کا کوئی خطرہ نہیں، یعنی اگر تم فقیر رہو تو کوئی خطرے کی بات نہیں بلکہ خطرہ مال دار ہونے میں ہے کہ کہیں فتنے میں نہ پڑ جاؤ۔ یا یہ مطلب ہے کہ مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم فقیر رہو گے بلکہ خطرہ ہے، تم مال دار ہو جاؤ گے۔ (۲) ’’کیا خیر بھی… الخ‘‘ یعنی مال تو اچھی چیز ہے۔ یہ کون سی خطرناک چیز ہے جو آپ اسے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ (۳) ’’موسم بہار کا اگایا ہوا سبزہ۔‘‘ حالانکہ یہ جانوروں کے لیے بہترین غزا ہوتا ہے مگر اس کا غلط استعمال موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح مال کا غلط حصول یا استعمال بھی دین کے لیے خطرناک ہے۔ (۴) ’’سبز اور میٹھا ہے۔‘‘ سبزہ جانور کو اور میٹھی چیز انسان کو مرغوب ہوتی ہے، اس لیے ان میں بے اعتدالی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی حالت مال کی ہے۔ (۵) ’’مگر سیر نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص زیادہ کھانے کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ (۶) یتیم صدقے کا حق دار ہے بشرطیکہ وہ فقیر بھی ہو۔ اسی طرح مسافر بھی۔ (۷) مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر ضرورت سے کم۔
(۱) ’’مجھے تو اس بات کا ڈر ہے۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے فقر کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: مجھے فقر کا کوئی خطرہ نہیں، یعنی اگر تم فقیر رہو تو کوئی خطرے کی بات نہیں بلکہ خطرہ مال دار ہونے میں ہے کہ کہیں فتنے میں نہ پڑ جاؤ۔ یا یہ مطلب ہے کہ مجھے یہ خطرہ نہیں کہ تم فقیر رہو گے بلکہ خطرہ ہے، تم مال دار ہو جاؤ گے۔ (۲) ’’کیا خیر بھی… الخ‘‘ یعنی مال تو اچھی چیز ہے۔ یہ کون سی خطرناک چیز ہے جو آپ اسے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ (۳) ’’موسم بہار کا اگایا ہوا سبزہ۔‘‘ حالانکہ یہ جانوروں کے لیے بہترین غزا ہوتا ہے مگر اس کا غلط استعمال موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی طرح مال کا غلط حصول یا استعمال بھی دین کے لیے خطرناک ہے۔ (۴) ’’سبز اور میٹھا ہے۔‘‘ سبزہ جانور کو اور میٹھی چیز انسان کو مرغوب ہوتی ہے، اس لیے ان میں بے اعتدالی ہو جاتی ہے۔ نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہی حالت مال کی ہے۔ (۵) ’’مگر سیر نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بھی ایک بیماری ہوتی ہے حتیٰ کہ وہ شخص زیادہ کھانے کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ (۶) یتیم صدقے کا حق دار ہے بشرطیکہ وہ فقیر بھی ہو۔ اسی طرح مسافر بھی۔ (۷) مسکین وہ ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر ضرورت سے کم۔