سنن النسائي - حدیث 2571

كِتَابُ الزَّكَاةِ ثَوَابُ مَنْ يُعْطِي ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ قَالَ سَمِعْتُ رِبْعِيًّا يُحَدِّثُ عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَثَلَاثَةٌ يَبْغُضُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَمَّا الَّذِينَ يُحِبُّهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَرَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ فَتَخَلَّفَهُ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِي أَعْطَاهُ وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَهُزِمُوا فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يَفْتَحَ اللَّهُ لَهُ وَالثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يَبْغُضُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الشَّيْخُ الزَّانِي وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ وَالْغَنِيُّ الظَّلُومُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2571

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل جو شخص (اللہ کے نام پر )دے اس کا ثواب؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے محبت فرماتا ہے اور تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بغض رکھتا ہے۔ جن سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے (وہ یہ ہیں:) ایک آدمی کسی قوم کے پاس آیا۔ ان سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کیا۔ کسی باہمی قرابت کی بنا پر سوال نہیں کیا، لیکن انھوں نے اسے کچھ نہ دیا۔ ایک شخص (ان میں سے اٹھا اور) ان لوگوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گیا اور اسے خفیہ طور پر دیا۔ اس کے اس عطیے کو اللہ تعالیٰ نے جانا یا اس شخص نے جسے اس نے دیا۔ (دوسرا یہ کہ) کچھ لوگ ساری رات چلتے رہے، حتی کہ جب نیند انھیں ہر اس چیز سے اچھی لگنے لگی جو نیند کے برابر ہو سکتی ہے تو وہ سواریوں سے اتر پڑے اور سو گئے، لیکن ایک شخص (نماز میں) کھڑا ہو کر میرے سامنے گڑ گڑانے لگا اور میری آیات تلاوت کرنے لگا۔ تیسرا وہ شخص جو ایک لشکر میں تھا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا۔ سب بھاگ کھڑے ہوئے مگر وہ ڈٹا رہا، حتیٰ کہ شہید ہوگیا یا اسے فتح مل گئی۔ اور وہ تین شخص جن سے اللہ عزوجل بغض رکھتا ہے، یہ ہیں: بوڑھا زنا کار، فقیر متکبر اور مال دار ظالم۔‘‘
تشریح : (۱) محبت اور بغض اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جن کا قرآن وحدیث میں بکثرت ذکر ملتا ہے، مگر کچھ لوگ فلسفے کے بعض غیر مسلم اصولوں سے متاثر ہو کر ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور ان سے صرف انعام وانتقام مراد لیتے ہیں، حالانکہ یہ الگ دو صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے واقفیت رکھتے ہیں؟ لفظ سے وہی معنی مراد لینے چاہئیں جو ایک سادہ سننے والے کی سمجھ میں آتے ہیں، حقیقت ہو یا مجاز۔ اگر ان صفات کا عام مفہوم اللہ تعالیٰ کے لائق نہ ہوتا تو ضرور بیان کر دیا جاتا۔ (۲) جن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے کا تعلق ہے۔ ان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے خلوص۔ تینوں ریا کاری سے کوسوں دور ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا مال، آرام اور جان قربان کرتے ہیں۔ (۳) زنا، تکبر اور ظلم ہر حال میں کبیرہ گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ اور ان کا فاعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہے مگر جب ان کے فاعل کے پاس ذرہ بھر بھی عذر نہ ہو حتیٰ کہ عرفاً بھی نہ ہو تو یہ کام اکبر الکبائر بن جاتے ہیں۔ نوجوان کے پاس شہوت، مالدار کے پاس مال اور فقیر کے ہاں فقر ان جرائم کا عذر عرفاً بن سکتے ہیں مگر بوڑھے کے پاس زنا اور فقیر کے پاس تکبر اور اکڑفوں اور مال دار کے پاس کسی کی حق تلفی کا کیا عذر ہو سکتا ہے؟ جسے شرعاً نہیں تو عرفاً ہی پیش کیا جا سکے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ عَنْھَا۔ (۱) محبت اور بغض اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جن کا قرآن وحدیث میں بکثرت ذکر ملتا ہے، مگر کچھ لوگ فلسفے کے بعض غیر مسلم اصولوں سے متاثر ہو کر ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور ان سے صرف انعام وانتقام مراد لیتے ہیں، حالانکہ یہ الگ دو صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے واقفیت رکھتے ہیں؟ لفظ سے وہی معنی مراد لینے چاہئیں جو ایک سادہ سننے والے کی سمجھ میں آتے ہیں، حقیقت ہو یا مجاز۔ اگر ان صفات کا عام مفہوم اللہ تعالیٰ کے لائق نہ ہوتا تو ضرور بیان کر دیا جاتا۔ (۲) جن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے کا تعلق ہے۔ ان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے خلوص۔ تینوں ریا کاری سے کوسوں دور ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا مال، آرام اور جان قربان کرتے ہیں۔ (۳) زنا، تکبر اور ظلم ہر حال میں کبیرہ گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ اور ان کا فاعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہے مگر جب ان کے فاعل کے پاس ذرہ بھر بھی عذر نہ ہو حتیٰ کہ عرفاً بھی نہ ہو تو یہ کام اکبر الکبائر بن جاتے ہیں۔ نوجوان کے پاس شہوت، مالدار کے پاس مال اور فقیر کے ہاں فقر ان جرائم کا عذر عرفاً بن سکتے ہیں مگر بوڑھے کے پاس زنا اور فقیر کے پاس تکبر اور اکڑفوں اور مال دار کے پاس کسی کی حق تلفی کا کیا عذر ہو سکتا ہے؟ جسے شرعاً نہیں تو عرفاً ہی پیش کیا جا سکے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ عَنْھَا۔