كِتَابُ الزَّكَاةِ تَفْسِيرُ ذَلِكَ حسن صحيح أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَصَدَّقُوا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي دِينَارٌ قَالَ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ قَالَ عِنْدِي آخَرُ قَالَ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ قَالَ عِنْدِي آخَرُ قَالَ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ قَالَ عِنْدِي آخَرُ قَالَ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ قَالَ عِنْدِي آخَرُ قَالَ أَنْتَ أَبْصَرُ
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
اس کی تفسیر ووضاحت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’صدقہ کرو۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے آپ پر خرچ کر۔‘‘ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنی بیوی پر خرچ کر۔‘‘ اس نے عرض کیا: میرے پاس ایک اور ہے۔ فرمایا: ’’اپنی اولاد پر خرچ کر۔‘‘ وہ عرض پر داز ہوا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اپنے نوکر پر خرچ کر۔‘‘ وہ بولا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر تو زیادہ جانتا ہے (کہ کہاں خرچ کرے)۔‘‘
تشریح :
(۱) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔ (۲) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔ (۳) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔ (۴) ’’تو زیادہ جانتا ہے۔‘‘ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔
(۱) اس حدیث میں تَصَدَّقُوْا کا لفظ ہے، مگر مراد فرض یا نفل صدقہ نہیں بلکہ مطلق خرچ کرنا مراد ہے۔ اس لفظ میں نکتہ یہ ہے کہ مومن کو اپنے واجب اخراجات پر بھی ثواب ملتا ہیے بشرطیکہ حلال مال سے کرے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور ثواب کی نیت رکھے۔ (۲) بعض احادیث میں اولاد کو بیوی سے پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں کے اخراجات یکساں واجب ہیں۔ (۳) بیان کردہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک فرض اخراجات پورے نہ ہوں، آگے صدقہ نہیں کرنا چاہیے۔ اول خویش بعد درویش۔ الا یہ کہ اختیار نہ رہے، مثلاً: مہمان گھر آجائے تو گھر والوں کو بھوکا رکھ کر بھی مہمان نوازی کی جا سکتی ہے۔ گویا یہاں اختیاری صدقے کا بیان ہے۔ (۴) ’’تو زیادہ جانتا ہے۔‘‘ یعنی پھر تیری مرضی۔ جہاں مناسب سمجھتا ہے خرچ کر۔