كِتَابُ الزَّكَاةِ الْيَدُ الْعُلْيَا صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ وَعُرْوَةُ سَمِعَا حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَقُولُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى
کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل
او پر والا ہاتھ
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے (مال) مانگا، آپ نے مجھے دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ میں نے پھر مانگا، آپ نے پھر دیا۔ ساتھ ہی فرمایا: ’’بلا شبہ یہ مال سبز وشیریں ہے۔ جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور جو دل کے طمع وحرص کے ساتھ لے گا، اس کے لیے اس میں برکت نہ ہوگی اور وہ اس شخص کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘
تشریح :
(۱) ’’سبز وشیریں‘‘ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (۲) ’’دل کی پاکیزگی۔‘‘ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (۳) ’’دل کے طمع وحرص۔‘‘ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (۴) ’’سیر نہیں ہوتا۔‘‘ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (۵) ’’اوپر والا ہاتھ۔‘‘ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (۶) ’’نیچے والے ہاتھ‘‘ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (۷) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔
(۱) ’’سبز وشیریں‘‘ سبز چارہ جانوروں کو بہت مرغوب ہوتا ہے اور میٹھی چیز عموماً انسانوں کو بہت پسند ہوتی ہے، اس لیے مال کو دو چیزوں سے تشبیہ دی گئی۔ (۲) ’’دل کی پاکیزگی۔‘‘ یعنی دل میں طمع اور لالچ نہ ہو اور نہ اس نے مانگا ہی ہو۔ یا دینے والے نے اسے خوشی سے دیا ہو، نہ کہ مجبوراً یا بغیر مانگے دیا ہو۔ (۳) ’’دل کے طمع وحرص۔‘‘ یعنی لینے والے کی یہ حالت ہو یا دینے والے نے طمع اور لالچ سے دیا ہو کہ مجھے زیادہ واپس ملے گا۔ (۴) ’’سیر نہیں ہوتا۔‘‘ کیونکہ دل غنی نہیں۔ دل غنی ہو تو تھوڑا بھی کافی محسوس ہوتا ہے ورنہ ڈھیر بھی مطمئن نہیں کر سکتے۔ (۵) ’’اوپر والا ہاتھ۔‘‘ یعنی دینے والا کیونکہ وہ بلند رہتا ہے۔ کسی کے سامنے ذلیل نہیں ہوتا۔ (۶) ’’نیچے والے ہاتھ‘‘ یعنی مانگنے والا۔ وہ حقیقتاً بھی دینے والے کے ہاتھ کے نیچے ہوتا ہے اور رتبے کے لحاظ سے بھی کم ہوتا ہے۔ (۷) حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انتہائی حاجت کے بغیر نہیں مانگنا چاہیے اور اگر خود بخود ملے تو پھر بھی دل میں حرص وطمع نہیں ہونا چاہیے اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو مانگنے سے رک جانا چاہیے بلکہ کسی کا دیا بھی قبول نہ کرے۔ اس میں عزت ہے۔