سنن النسائي - حدیث 2528

كِتَابُ الزَّكَاةِ جُهْدُ الْمُقِلِّ حسن أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ وَالْقَعْقَاعُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ قَالُوا وَكَيْفَ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2528

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل کم مال والے کا مشقت سے کمایا ہوا مال حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’(کبھی) ایک درہم (کا ثواب) لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ’’ایک آدمی کے پاس کل دو درہم ہوں، اس نے ان میں سے ایک صدقہ کر دیا۔ اور دوسرا شخص اپنے مال کے ایک کونے میں گیا۔ اس میں سے ایک لاکھ درہم اٹھایا اور صدقہ کر دیا۔‘‘
تشریح : مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۳۴۹- ۳۵۱، والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۱۴/ ۴۹۸، وصحیح سنن النسائی للالبانی: ۲/ ۲۰۳، رقم: ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ} (الحج: ۳۷) ’’اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔‘‘ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔ مذکورہ روایت اور اگلی روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے حسن قرار دیا ہے، بعض نے صحیح اور بعض نے اسنادہ قوی کا حکم لگایا ہے، نیز انھوں نے ان احادیث پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ان کے شواہد اور متابعات کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۳۴۹- ۳۵۱، والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۱۴/ ۴۹۸، وصحیح سنن النسائی للالبانی: ۲/ ۲۰۳، رقم: ۲۵۲۶، ۲۵۲۷) علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ گنتی کو نہیں دیکھتا بلکہ خرچ کرنے والے کے جذبے اور اس کے دل کی حالت کو دیکھتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: {لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ} (الحج: ۳۷) ’’اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی کے گوشت اور ان (قربانی والے جانوروں) کے خون نہیں پہنچتے، بلکہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ اور خلوص پہنچتا ہے۔‘‘ یاد رہے اجر بھی اسی چیز کا ہے۔