سنن النسائي - حدیث 2524

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب إِذَا أَعْطَاهَا غَنِيًّا وَهُوَ لَا يَشْعُرُ صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قَالَ رَجُلٌ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيٍّ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى سَارِقٍ وَعَلَى غَنِيٍّ فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ تُقُبِّلَتْ أَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهِ مِنْ زِنَاهَا وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهِ عَنْ سَرِقَتِهِ وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ أَنْ يَعْتَبِرَ فَيُنْفِقَ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2524

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی شخص لا علمی میں زکاۃ کسی غنی کو دے بیٹھے تو؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’(بنی اسرائیل میں سے) ایک آدمی نے کہا: میں آج ضرور صدقہ کروں گا۔ وہ (رات کے وقت) اپنا صدقہ لے کر نکلا اور جا کر ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا، تو صبح لوگ یہ کہنے لگے کہ چور پر صدقہ کیا گیا ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ! تیرا شکر ہے (اگرچہ) چور پر صدقہ ہوگیا۔ آج میں پھر صدقہ کروں گا۔ وہ صدقہ لے کر نکلا تو کسی زانیہ کے ہاتھ پر رکھ آیا۔ صبح لوگ یہ کہنے لگے کہ رات ایک بدکار عورت پر صدقہ کیا گیا۔ اس آدمی نے کہا: اے اللہ تیرا شکر ہے (اگرچہ) زانیہ پر صدقہ ہوگیا ہے۔ آج پھر میں صدقہ کروں گا، پھر وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا۔ ایک غنی کو دے آیا۔ صبح لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ (تعجب ہے) مالدار پر صدقہ کیا گیا ہے۔ وہ شخص کہنے لگا، اے اللہ تیرا! شکر ہے (عجیب بات ہے) کبھی بدکار عورت پر صدقہ ہو جاتا ہے، کبھی چور پر اور کبھی مال دار پر، پھر خواب میں اس سے کہا گیا: تیرا صدقہ تو یقینا قبول ہو چکا۔ رہی زانیہ! (یعنی اس پر کیا ہوا صدقہ) تو (وہ اس لیے قبول ہے کہ) شاید اس صدقے کی وجہ سے وہ بدکاری سے باز آجائے۔ اور چور! شاید وہ اس (صدقے) کی وجہ سے چوری کرنے سے باز آجائے اور مال دار! شاید وہ عبرت ونصیحت حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے مال سے خرچ کرنے لگے۔‘‘
تشریح : (۱) مندرجہ بالا واقعہ بنی اسرائیل کا ہے۔ جب تک ہماری شریعت پہلی شریعتوں کی کسی بات کی تردید نہ کرے، اس وقت تک پہلی بات بھی حجت ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی نبیﷺ نے بیان فرما کر تصدیق فرما دی، لہٰذا حجت ہے۔ اسی طرح کسی کا خواب حجت تو نہیں ہوتا مگر نبی کریمﷺ کی تصدیق سے یہ بھی حجت بن گیا۔ (۲) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ اگر غلطی یا لا علمی سے زکاۃ کسی ایسے شخص کو دے دی گئی ہو جو مستحق نہیں تھا تو ادا کرنے والے شخص پر کوئی ملامت نہیں، نیز وہ بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے، اگرچہ لینے والے کے لیے جائز نہیں، البتہ اس واقعے میں یہ صراحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل۔ ہاں، اگر جان بوجھ کر غیر مستحق کو ادا کرے تو وہ بریٔ الذمہ نہ ہوگا۔ (۳) چور اور زانیہ اگر فقیر تھے تو وہ صدقے کے مستحق تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چور فقر کی وجہ سے چوری کرتا ہو اور زانیہ بھی فقر کی وجہ سے زنا کا ارتکاب کرتی ہو۔ اگرچہ اس صورت میں بھی یہ جرائم ان کے لیے جائز نہ تھے مگر ان جرائم کے باوجود وہ فقر کی وجہ سے زکاۃ کے مستحق تھے۔ صدقہ کرنے والے کا اظہار افسوس عرف کے طور پر تھا کیونکہ عموماً جرائم پیشہ لوگوں کو صدقہ نہیں دیا جاتا، مگر شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ممکن ہے ان سے تعاون ان کی اصلاح کا سبب بن جائے۔ (۱) مندرجہ بالا واقعہ بنی اسرائیل کا ہے۔ جب تک ہماری شریعت پہلی شریعتوں کی کسی بات کی تردید نہ کرے، اس وقت تک پہلی بات بھی حجت ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی نبیﷺ نے بیان فرما کر تصدیق فرما دی، لہٰذا حجت ہے۔ اسی طرح کسی کا خواب حجت تو نہیں ہوتا مگر نبی کریمﷺ کی تصدیق سے یہ بھی حجت بن گیا۔ (۲) اس واقعے سے معلوم ہوا کہ اگر غلطی یا لا علمی سے زکاۃ کسی ایسے شخص کو دے دی گئی ہو جو مستحق نہیں تھا تو ادا کرنے والے شخص پر کوئی ملامت نہیں، نیز وہ بریٔ الذمہ ہو جاتا ہے، اگرچہ لینے والے کے لیے جائز نہیں، البتہ اس واقعے میں یہ صراحت نہیں کہ وہ صدقہ فرض تھا یا نفل۔ ہاں، اگر جان بوجھ کر غیر مستحق کو ادا کرے تو وہ بریٔ الذمہ نہ ہوگا۔ (۳) چور اور زانیہ اگر فقیر تھے تو وہ صدقے کے مستحق تھے۔ ہو سکتا ہے کہ چور فقر کی وجہ سے چوری کرتا ہو اور زانیہ بھی فقر کی وجہ سے زنا کا ارتکاب کرتی ہو۔ اگرچہ اس صورت میں بھی یہ جرائم ان کے لیے جائز نہ تھے مگر ان جرائم کے باوجود وہ فقر کی وجہ سے زکاۃ کے مستحق تھے۔ صدقہ کرنے والے کا اظہار افسوس عرف کے طور پر تھا کیونکہ عموماً جرائم پیشہ لوگوں کو صدقہ نہیں دیا جاتا، مگر شرعاً ایسی کوئی پابندی نہیں۔ ممکن ہے ان سے تعاون ان کی اصلاح کا سبب بن جائے۔