سنن النسائي - حدیث 2510

كِتَابُ الزَّكَاةِ مَكِيلَةُ زَكَاةِ الْفِطْرِ ضعيف الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ فِي آخِرِ الشَّهْرِ أَخْرِجُوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ فَنَظَرَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَقَالَ مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُومُوا فَعَلِّمُوا إِخْوَانَكُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الزَّكَاةَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ ذَكَرٍ وَأُنْثَى حُرٍّ وَمَمْلُوكٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ تَمْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ فَقَامُوا خَالَفَهُ هِشَامٌ فَقَالَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2510

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل صدقۃ الفطر کی مقدار کا بیان حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے، جب وہ بصرہ کے حاکم تھے، ماہ رمضان المبارک کے آخر میں (خطبہ دیا) فرمایا: اپنے روزوں کی زکاۃ (صدقۃ الفطر) نکالو۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ آپ نے فرمایا: یہاں جو مدینہ منورہ کے لوگ ہیں اٹھیں اور اپنے (بصری) بھائیوں کو تعلیم دیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ ہر مذکر و مؤنث اور آزاد وغلام پر کھجور اور جو کا ایک صاع اور گندم کا آدھا صاع فرض کیا ہے۔ تولوگ اٹھے۔ ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، اسے نے (حسن کے بجائے) ابن سیرین کا نام لیا ہے۔
تشریح : (۱) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: ۱۵۸۱ کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔ (۲) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔ (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔ (۴) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحۃ: ۳/ ۱۷۱) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ اعلم) (۱) مذکورہ روایت کی صحت اور ضعف کی بابت تحقیق حدیث: ۱۵۸۱ کے فوائد میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں بیان کردہ مسئلہ درست اور صحیح ہے۔ (۲) بصرے میں سب لوگ اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے جبکہ مدینے کے لوگ عالم تھے کیونکہ مدینہ منورہ علم کا مرکز تھا۔ (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرے کے حاکم رہے۔ (۴) اس روایت سے ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم سے نصف صاع مقرر فرمایا تھا۔ لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔ جبکہ بعض دیگر روایات سے تصدیق ہوتی ہے کہ نصف صاع بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔ یہ صرف سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ہی کا اجتہاد نہ تھا، نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عہد نبوی میں گندم کا وجود نہ تھا، نصف صاع گندم کی روایات مجموعی اعتبار سے واقعی قابل استناد ہیں۔ دیکھیے: (الصحیحۃ: ۳/ ۱۷۱) لہٰذا نصف صاع گندم کی ادائیگی بھی درست ہے۔ بہرحال اس سب کے باوجود، خصوصاً ہمارے خطے پاک وہند میں، ایک صاع گندم دینا ہی اولیٰ وافضل ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرامؓ کا عمل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور اس کے بعد بھی۔ (واللہ اعلم)