سنن النسائي - حدیث 2505

كِتَابُ الزَّكَاةِ فَرْضُ زَكَاةِ رَمَضَانَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ دُونَ الْمُعَاهِدِينَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى النَّاسِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2505

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل زکاۃ رمضان مسلمانوں پر فرض ہے ‘ذمیوں پرنہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ فطر ہر آزاد، غلام، مذکر ومونث مسلمان پر کھجور اور جو سے ایک صاع مقرر فرمایا ہے۔
تشریح : (۱) صدقہ فطر ایک عبادت ہے۔ روزوں کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔ ادائیگی عید الفطر سے پہلے کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا مسلمان ہی پر واجب ہوگا، کسی کافر پر واجب نہ ہوگا۔ من المسلمین کے الفاظ اس کی واضہ دلیل ہیں۔ مگر احناف کے نزدیک کافر غلام پر بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے: [لَیْسَ فِی الْعَبْدِ صَدَقَۃٌ اِلَّا صَدَقَۃَ الْفِطْرِ] ’’مسلمان پر اس کے غلام میں صرف صدقہ فطر ہی واجب ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: ۱۰۹۸۲) حدیث میں ’’عبد‘‘ عام ہے، خواہ مسلم ہو یا کافر، لیکن یہ حدیث عام ہے اس کا مفہوم دوسری صریح حدیث کی روشنی میں متعین ہوگا اور وہ یہی مذکورہ بالا حدیث ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جن کی طرف سے نکالا جائے وہ مسلم ہو، اور زیر بحث حدیث خاص بھی ہے، اصول ہے کہ عام کو خاص پر محمول کیا جاتا ہے، اس طرح دونوں احادیث کا مفہوم برقرار رہتا ہے اور ان میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام طحاوی اس مذکورہ بالا حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق مخرجین، یعنی صدقہ نکالنے والوں کے ساتھ ہے،نہ کہ ان سے جن کی طرف سے صدقہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ تاویل بلا دلیل اور دیگر دلائل وروایات کی روشنی میں بے معنی ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں غلام کا اور ایک دوسری صحیح حدیث میں بچے کا بھی ذکر آتا ہے کیا یہ بھی مخرجین میں شمار ہوتے ہیں، نیز صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی طرف سے صدقہ فطر نکالا جائے گا۔ [عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ…] ’’مسلمانوں کے ہر فرد پر (فرض کیا ہے) خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔‘‘ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: ۹۸۴/ ۱۶) جب کافر وجوب کا اہل ہی نہیں تو اس کی طرف سے ادائیگی کیسی؟ (۲) ہر مسلمان کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر اور محتاج بھی صدقہ فطر ادا کرے گا۔ (۳) ’’رمضان کی زکاۃ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں: [طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ… وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْن] (سنن ابی داود، الزکاۃ، حدیث: ۱۶۰۹) یعنی یہ ادا شدہ روزوں کو پاکیزہ بنائے گا اور یا وہ گوئی کی آلودگی سے روزے کو صاف کرے گا، نیز مساکین کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے گا، اس لیے صدقۃ الفطر کو روزوں یا رمضان کی زکاۃ کہنا مناسب ہے۔ یہاں زکاۃ کے معنی پاکیزگی ہیں۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰) (۱) صدقہ فطر ایک عبادت ہے۔ روزوں کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔ ادائیگی عید الفطر سے پہلے کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا مسلمان ہی پر واجب ہوگا، کسی کافر پر واجب نہ ہوگا۔ من المسلمین کے الفاظ اس کی واضہ دلیل ہیں۔ مگر احناف کے نزدیک کافر غلام پر بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے: [لَیْسَ فِی الْعَبْدِ صَدَقَۃٌ اِلَّا صَدَقَۃَ الْفِطْرِ] ’’مسلمان پر اس کے غلام میں صرف صدقہ فطر ہی واجب ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: ۱۰۹۸۲) حدیث میں ’’عبد‘‘ عام ہے، خواہ مسلم ہو یا کافر، لیکن یہ حدیث عام ہے اس کا مفہوم دوسری صریح حدیث کی روشنی میں متعین ہوگا اور وہ یہی مذکورہ بالا حدیث ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جن کی طرف سے نکالا جائے وہ مسلم ہو، اور زیر بحث حدیث خاص بھی ہے، اصول ہے کہ عام کو خاص پر محمول کیا جاتا ہے، اس طرح دونوں احادیث کا مفہوم برقرار رہتا ہے اور ان میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام طحاوی اس مذکورہ بالا حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق مخرجین، یعنی صدقہ نکالنے والوں کے ساتھ ہے،نہ کہ ان سے جن کی طرف سے صدقہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ تاویل بلا دلیل اور دیگر دلائل وروایات کی روشنی میں بے معنی ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں غلام کا اور ایک دوسری صحیح حدیث میں بچے کا بھی ذکر آتا ہے کیا یہ بھی مخرجین میں شمار ہوتے ہیں، نیز صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی طرف سے صدقہ فطر نکالا جائے گا۔ [عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ…] ’’مسلمانوں کے ہر فرد پر (فرض کیا ہے) خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔‘‘ (صحیح مسلم، الزکاۃ، حدیث: ۹۸۴/ ۱۶) جب کافر وجوب کا اہل ہی نہیں تو اس کی طرف سے ادائیگی کیسی؟ (۲) ہر مسلمان کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر اور محتاج بھی صدقہ فطر ادا کرے گا۔ (۳) ’’رمضان کی زکاۃ۔‘‘ ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں: [طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ… وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْن] (سنن ابی داود، الزکاۃ، حدیث: ۱۶۰۹) یعنی یہ ادا شدہ روزوں کو پاکیزہ بنائے گا اور یا وہ گوئی کی آلودگی سے روزے کو صاف کرے گا، نیز مساکین کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے گا، اس لیے صدقۃ الفطر کو روزوں یا رمضان کی زکاۃ کہنا مناسب ہے۔ یہاں زکاۃ کے معنی پاکیزگی ہیں۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۵۱۰)