سنن النسائي - حدیث 2502

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب فَرْضِ زَكَاةِ رَمَضَانَ صحيح أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ رَمَضَانَ عَلَى الْحُرِّ وَالْعَبْدِ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2502

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل رمضان کی زکاۃ(صدقۃ الفطر)فرض ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے رمضان المبارک کا صدقہ (صدقۃ الفطر) ہر آزاد، غلام، مذکر اور مؤنث پر کھجور اور جو کا ایک صاع مقرر فرمایا تھا۔ بعد میں لوگوں نے اس کی جگہ گندم کا نصف صاع ٹھہرا لیا۔
تشریح : (۱) اس صدقے کو زکاۃ رمضان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اور صدقۃ الفطر، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی افطار، یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر واجب ہوتی ہے، جیسے اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ (۲) غلام پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، البتہ غلام کی طرف سے ادائیگی اس کا مالک کرے گا بشرطیکہ مالک مسلمان ہو۔ اگر مالک ادا نہیں کرتا اور غلام استطاعت رکھتا ہے تو وہ خود ادا کر دے گا۔ اگر مالک کافر ہے اور غلام استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے معاف ہے کیونکہ {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا} (۳) ’’کھجور اور جو کا ایک صاع‘‘ اس دور میں عرب میں عام خوراک یہی دو چیزیں تھیں، لہٰذا ان میں ایک صاع مقرر فرما دیا۔ گندم کا عام رواج نہ تھا، بعد میں رفاہیت کا دور آیا تو لوگوں نے عموماً گندم کھانی شروع کر دی لیکن گندم کھجور اور جو کی نسبت بہت مہنگی تھی، اس لیے قیمت کا حساب لگاتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو کھجور اور جو کے ایک صاع کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے گنجائش تھی اور اسے گنجائش ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں گندم کھجور سے کافی سستی ہے، اس لیے اب اس کا ایک صاع نکالنا ہی افضل ہے اور یہ حکمت کے عین موافق بھی ہے۔ (۱) اس صدقے کو زکاۃ رمضان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اور صدقۃ الفطر، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی افطار، یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر واجب ہوتی ہے، جیسے اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔ (۲) غلام پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، البتہ غلام کی طرف سے ادائیگی اس کا مالک کرے گا بشرطیکہ مالک مسلمان ہو۔ اگر مالک ادا نہیں کرتا اور غلام استطاعت رکھتا ہے تو وہ خود ادا کر دے گا۔ اگر مالک کافر ہے اور غلام استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے معاف ہے کیونکہ {لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا} (۳) ’’کھجور اور جو کا ایک صاع‘‘ اس دور میں عرب میں عام خوراک یہی دو چیزیں تھیں، لہٰذا ان میں ایک صاع مقرر فرما دیا۔ گندم کا عام رواج نہ تھا، بعد میں رفاہیت کا دور آیا تو لوگوں نے عموماً گندم کھانی شروع کر دی لیکن گندم کھجور اور جو کی نسبت بہت مہنگی تھی، اس لیے قیمت کا حساب لگاتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو کھجور اور جو کے ایک صاع کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے گنجائش تھی اور اسے گنجائش ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں گندم کھجور سے کافی سستی ہے، اس لیے اب اس کا ایک صاع نکالنا ہی افضل ہے اور یہ حکمت کے عین موافق بھی ہے۔