سنن النسائي - حدیث 2497

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب الْمَعْدِن صحيح أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2497

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل کان (سے نکلنے والی معدنیات)کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیﷺ نے فرمایا: ’’جانور کا کیا ہوا نقصان رائیگاں ہے، کنویں کا نقصان رائیگاں ہے اور معدنی کان کا نقصان بھی رائیگاں ہے۔ اور مدفون خزانے میں پانچواں حصہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱) عجماء کے معنی ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔ (۲) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔ (۳) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ اعلم (۱) عجماء کے معنی ہیں: گونگا۔ چونکہ جانور ہمارے لحاظ سے بے زبان ہیں، لہٰذا انھیں عجماء یا گونگے ہی کہا جاتا ہے۔ جانور مالک سے بھاگ جائے یا چرتے پھرتے کوئی نقصان کر دے، مثلاً کسی کو سینگ مار دے یا ٹانگ لگا دے یا کوئی اس سے گر پڑے اور زخم آجائے تو جانور کے مالک پر کوئی تاوان نہ ڈالا جائے گا کیونکہ جانور ان مسائل میں بے سمجھ ہیں اور مالک پاس نہیں، یا اگر ہو بھی تو اس کا کوئی قصور نہیں، البتہ اگر اس نقصان میں مالک کا کوئی دخل ہو، مثلاً اس نے خود جانور کو کسی کے پیچھے لگایا یا روکنے کی کوشش ہی نہیں کی یا عادی نقصان پہنچانے والا جانور قصداً کھلا چھوڑا (مثلاً: کاٹنے والا کتا یا کوئی درندہ رکھا اور کھلا چھوڑا) تو اس پر نقصان کا تاوان ڈالا جا سکتا ہے ہے۔ اسی طرح اگر جانور رات کو کھلا چھوڑ دے اور وہ کسی کی فصل پر چر جائے یا دن کے وقت اس کی موجودگی میں جانور کسی کی فصل چر جائے تو وہ نقصان بھی جانور کے مالک کے ذمے ہوگا۔ (۲) کان یا کنواں کھودتے وقت یا اس میں کام کرتے وقت کوئی شخص کان یا کنواں گرنے سے زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک پر کوئی تاوان نہ ہوگا۔ اسی طرح کوئی شخص کان یا کنویں میں گر کر زخمی ہو جائے یا مر جائے تو مالک سے کوئی تاوان وصول نہیں کیا جا سکتا الا یہ کہ اس کا کوئی جرم ثابت ہوا۔ (۳) بعض کا کہنا ہے کہ مدفون خزانہ کسی سرکاری جگہ سے ملے تو بیت المال کو خمس ادا کیا جائے گا، باقی اس کو جسے ملا۔ اگر اپنی ذاتی جگہ سے ملا تو اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ لیکن راجح یہ ہے کہ جونسی بھی زمین ہو، مدفون خزانہ ملنے پر خمس ادا کیا جائے گا۔ حدیث میں کسی خاص زمین کا تعین نہیں۔ واللہ اعلم