سنن النسائي - حدیث 2493

كِتَابُ الزَّكَاةِ كَمْ يَتْرُكُ الْخَارِصُ ضعيف أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَا حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ خُبَيْبَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ قَالَ أَتَانَا وَنَحْنُ فِي السُّوقِ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ فَإِنْ لَمْ تَأْخُذُوا أَوْ تَدَعُوا الثُّلُثَ شَكَّ شُعْبَةُ فَدَعُوا الرُّبُعَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2493

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل اندازہ لگانے والا کتنا چھوڑ دے حضرت عبدالرحمن بن مسعود بن نیار سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بازار میں تشریف لائے اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جب تم (عشر وصول کرتے وقت فصل یا پھل کا اندازہ لگاؤ تو اندازے میں سے تیسرا حصہ چھوڑ دو۔ اگر تیسرا حصہ نہ چھوڑو تو چوتھا حصہ ضرور چھوڑ دو۔‘‘
تشریح : (۱ حکومت جن فصلوں یا پھلوں کا عشر وصول کرتی تھی، ان میں طریقہ کار یہ تھا کہ فصل یا پھل پکنے سے پہلے سمجھ دار ماہر لوگ اندازہ لگانے کے لیے بھیجے جاتے جو یہ اندازہ لگاتے کہ فلاں آدمی کی فصل یا پھل اتنا ہونے کی توقع ہے۔ اسے ’’خرص‘‘ کہا جاتا تھا۔ (۲ خرص کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ پھل یا فصل پکنے کے بعد مالک کھانے کھلانے میں آزاد ہوتا تھا۔ جو چاہے کھائے، دوسروں کو کھلائے۔ حکومت کٹائی کے موقع پر اندازے (خرص کے مطابق عشر وصول کر لیتی تھی۔ اس طریقے سے نہ مالک کو تنگی ہوتی تھی اور نہ حکومت کو اعتراض کا موقع ملتا تھا۔ (۳ احناف خرص کے قائل نہیں کہ پتا نہیں اندازہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کسی پر ظلم بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ سود والی علت کی بنا پر منع ہے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ اس میں فریقین کا فائدہ ہے۔ باقی رہا ظلم کا امکان تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے الفاظ میں خود ہی تجویز فرما دیا ہے کہ اندازہ لگانے کے بعد تیسرے یا چوتھے حصے کی رعایت دی جاے، نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں اور خلفائے راشدین اپنے اپنے ادوار مبارکہ میں اور عام صحابہ کرام اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ سود یا جوئے کے مشابہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا اقدام نہ فرماتے، اور نہ اس کی اجازت ہی مرحمت فرماتے۔ کیا مانعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامe سے زیادہ دین کے خیر خواہ یا ان سے زیادہ علم والے ہیں؟ دراصل شریعت لوگوں کی تنگی کا بھی لحاظ رکھتی ہے، جیسے بلی کے جوٹھے کا پلید نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔ (۴ ’’تیسرا حصہ چھوڑ دو۔‘‘ کیونکہ ضروری نہیں اندازے کے مطابق ہی پیداوار ہو۔ جانور کھا جاتے ہیں، ناگہانی آفات سے فصل اور پھل کا نقصان ہو سکتا ہے، لوگ اور سائلین بھی کمی کا موجب بن سکتے ہیں، اس لیے مالک کو رعایت چاہیے۔ چونکہ حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا تیسرے یا چوتھے حصے یا ان کے مابین کمی کا اختیار دیا تاکہ کسی پر زیادی نہ ہو۔ اگر زیادہ نقصان ہو جائے تو اس سے زیادہ بھی رعایت دینی پڑے گی۔ (۱ حکومت جن فصلوں یا پھلوں کا عشر وصول کرتی تھی، ان میں طریقہ کار یہ تھا کہ فصل یا پھل پکنے سے پہلے سمجھ دار ماہر لوگ اندازہ لگانے کے لیے بھیجے جاتے جو یہ اندازہ لگاتے کہ فلاں آدمی کی فصل یا پھل اتنا ہونے کی توقع ہے۔ اسے ’’خرص‘‘ کہا جاتا تھا۔ (۲ خرص کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ پھل یا فصل پکنے کے بعد مالک کھانے کھلانے میں آزاد ہوتا تھا۔ جو چاہے کھائے، دوسروں کو کھلائے۔ حکومت کٹائی کے موقع پر اندازے (خرص کے مطابق عشر وصول کر لیتی تھی۔ اس طریقے سے نہ مالک کو تنگی ہوتی تھی اور نہ حکومت کو اعتراض کا موقع ملتا تھا۔ (۳ احناف خرص کے قائل نہیں کہ پتا نہیں اندازہ صحیح ہو یا نہ ہو۔ اس طرح کسی پر ظلم بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا یہ سود والی علت کی بنا پر منع ہے، مگر وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ اس میں فریقین کا فائدہ ہے۔ باقی رہا ظلم کا امکان تو اس کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے الفاظ میں خود ہی تجویز فرما دیا ہے کہ اندازہ لگانے کے بعد تیسرے یا چوتھے حصے کی رعایت دی جاے، نیز خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات طیبہ میں اور خلفائے راشدین اپنے اپنے ادوار مبارکہ میں اور عام صحابہ کرام اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ اگر یہ سود یا جوئے کے مشابہ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قسم کا اقدام نہ فرماتے، اور نہ اس کی اجازت ہی مرحمت فرماتے۔ کیا مانعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامe سے زیادہ دین کے خیر خواہ یا ان سے زیادہ علم والے ہیں؟ دراصل شریعت لوگوں کی تنگی کا بھی لحاظ رکھتی ہے، جیسے بلی کے جوٹھے کا پلید نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔ (۴ ’’تیسرا حصہ چھوڑ دو۔‘‘ کیونکہ ضروری نہیں اندازے کے مطابق ہی پیداوار ہو۔ جانور کھا جاتے ہیں، ناگہانی آفات سے فصل اور پھل کا نقصان ہو سکتا ہے، لوگ اور سائلین بھی کمی کا موجب بن سکتے ہیں، اس لیے مالک کو رعایت چاہیے۔ چونکہ حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا تیسرے یا چوتھے حصے یا ان کے مابین کمی کا اختیار دیا تاکہ کسی پر زیادی نہ ہو۔ اگر زیادہ نقصان ہو جائے تو اس سے زیادہ بھی رعایت دینی پڑے گی۔