سنن النسائي - حدیث 2466

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب إِعْطَاءِ السَّيِّدِ الْمَالَ بِغَيْرِ اخْتِيَارِ الْمُصَّدِّقِ ضعيف أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ قَالَ وَقَالَ عُمَرُ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدْ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2466

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل مالک زکا ۃ اپنی مرضی سے دے گا ‘صدقہ لینے والا اپنی مرضی نہیں کرے گا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’رسول اللہﷺ نے زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا۔ آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل، حضرت خالد بن ولید اور حضرت عباس بن عبدالمطلب نے زکاۃ نہیں دی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ابن جمیل تو اس لیے ناراض ہے کہ وہ فقیر تھا، اللہ تعالیٰ نے اسے مال دار بنا دیا۔ رہا خالد بن ولید تو تم خالد پر ظلم کرتے ہو۔ انھوں نے تو اپنی زر ہیں اور دوسرا جنگی ساز وسامان اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کر رکھا ہے۔ باقی رہے رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب تو ان کی زکاۃ رسول اللہﷺ کے ذمے ہے بلکہ اس کے ساتھ اتنی اور ہے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ابن جمیل‘‘ یہ منافق شخض تھا۔ زکاۃ کو تاوان سمجھتا تھا، اس لیے آپ نے اس کے متعلق یہ الفاظ فرمائے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی تھی۔ (۲)’’وقف کر رکھا ہے۔‘‘ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگی ساز وسامان کی زکاۃ طلب کی تھی کہ شاید یہ مال تجارت کے لیے ہے، حالانکہ وہ تو فی سبیل اللہ وقف تھا اور وقف مال میں زکاۃ نہیں ہوتی۔ یا نبی اکرمﷺ کا مطلب یہ ہے کہ خالد تو اس مخلص ہیں کہ انھوں نے اپنا سارا جنگی سامان وقف کر رکھا ہے، وہ زکاۃ سے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھوں نے زکاۃ کی رقم سے جنگی سامان خرید کر وقف کر دیا ہے، لہٰذا ان سے زکاۃ نہ مانگی جائے۔ (۳)بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ دو سال کی زکاۃ کسی ملکی ضرورت کی وجہ سے پیشگی وصول کر چکے تھے، لہٰذا یہ صراحت فرمائی ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زکاۃ سے کیسے انکار کر سکتے تھے؟ (۱) ’’ابن جمیل‘‘ یہ منافق شخض تھا۔ زکاۃ کو تاوان سمجھتا تھا، اس لیے آپ نے اس کے متعلق یہ الفاظ فرمائے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی تھی۔ (۲)’’وقف کر رکھا ہے۔‘‘ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگی ساز وسامان کی زکاۃ طلب کی تھی کہ شاید یہ مال تجارت کے لیے ہے، حالانکہ وہ تو فی سبیل اللہ وقف تھا اور وقف مال میں زکاۃ نہیں ہوتی۔ یا نبی اکرمﷺ کا مطلب یہ ہے کہ خالد تو اس مخلص ہیں کہ انھوں نے اپنا سارا جنگی سامان وقف کر رکھا ہے، وہ زکاۃ سے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھوں نے زکاۃ کی رقم سے جنگی سامان خرید کر وقف کر دیا ہے، لہٰذا ان سے زکاۃ نہ مانگی جائے۔ (۳)بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ دو سال کی زکاۃ کسی ملکی ضرورت کی وجہ سے پیشگی وصول کر چکے تھے، لہٰذا یہ صراحت فرمائی ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زکاۃ سے کیسے انکار کر سکتے تھے؟