سنن النسائي - حدیث 2462

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب إِذَا جَاوَزَفِي الصَّدَقَةِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَعِيلَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ قَالَ قَالَ جَرِيرٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنْ الْأَعْرَابِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ يَأْتِينَا نَاسٌ مِنْ مُصَدِّقِيكَ يَظْلِمُونَ قَالَ أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ قَالُوا وَإِنْ ظَلَمَ قَالَ أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ ثُمَّ قَالُوا وَإِنْ ظَلَمَ قَالَ أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ قَالَ جَرِيرٌ فَمَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ مُنْذُ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ رَاضٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2462

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل جب کوئی صدقہ وصول کرنے والا حد سے تجاوز کرے تو؟ حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! آپ کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ ظلم کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔‘‘ انھوں نے کہا: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ’’صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔‘‘ وہ پھر کہنے لگے: اگرچہ وہ ظلم کرے؟ آپ نے فرمایا: ’’صدقہ وصول کرنے والوں کو راضی کرو۔‘‘ حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو میرے پاس سے کوئی صدقہ وصول کرنے والا شخص ناراض ہو کر نہیں گیا، بلکہ خوش خوش گیا۔
تشریح : عام لوگ زکاۃ کی مقدار کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ لے رہا ہے۔ ویسے بھی زکاۃ دیتے وقت یہ احساس غالب رہتا ہے، س لیے آپ نے زکاۃ کے تعین کا اختیار عوام الناس کو نہیں دیا بلکہ وصول کرنے والوں کو یہ اختیار دیا کیونکہ وہ زکاۃ کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مطالبے کے مطابق انھیں زکاۃ ادا کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو حاکم بالا کے پاس جائیں اور فیصلہ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہر آدمی کو مزاحمت کا اختیار دے دیا جائے تو انتظامی افراتفری پھیل جائے گی اور ملک ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والوں کے من مانی کی اجازت ہے۔ عام لوگ زکاۃ کی مقدار کی تفصیلات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والا زیادہ لے رہا ہے۔ ویسے بھی زکاۃ دیتے وقت یہ احساس غالب رہتا ہے، س لیے آپ نے زکاۃ کے تعین کا اختیار عوام الناس کو نہیں دیا بلکہ وصول کرنے والوں کو یہ اختیار دیا کیونکہ وہ زکاۃ کی تفصیلات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مطالبے کے مطابق انھیں زکاۃ ادا کریں۔ اگر کوئی شکایت ہو تو حاکم بالا کے پاس جائیں اور فیصلہ حاصل کریں۔ لیکن اگر ہر آدمی کو مزاحمت کا اختیار دے دیا جائے تو انتظامی افراتفری پھیل جائے گی اور ملک ابتری کا شکار ہو جائے گا۔ اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ زکاۃ وصول کرنے والوں کے من مانی کی اجازت ہے۔