سنن النسائي - حدیث 2459

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب الْجَمْعِ بَيْنَ الْمُتَفَرِّقِ وَالتَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُجْتَمِعِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ عَنْ هُشَيْمٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ مَيْسَرَةَ أَبِي صَالِحٍ عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ أَتَانَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ فِي عَهْدِي أَنْ لَا نَأْخُذَ رَاضِعَ لَبَنٍ وَلَا نَجْمَعَ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا نُفَرِّقَ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ فَأَتَاهُ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ كَوْمَاءَ فَقَالَ خُذْهَا فَأَبَى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2459

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا یا اکٹھے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ کرنا (منع ہے) حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکاۃ وصول کرنے والا شخص آیا۔ میں اس کے پاس آیا اور بیٹھا۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھ سے یہ عہد لیا گیا ہے کہ ہم دودھ پیتا بچہ یا دودھ والا جانور زکاۃ میں نہیں لیں گے اور علیحدہ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا نہیں کریں گے اور اکٹھے جانوروں کو علیحدہ علیحدہ نہیں کریں گے۔ ایک شخص ان کے پاس اونچی کوہان والی (بہترین اونٹنی لایا اور کہنے لگا: یہ زکاۃ میں لے لو۔ اس نے انکار کر دیا۔
تشریح : (۱ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، تاہم شواہد پر صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۲۵- ۱۲۷، والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۳۱/ ۱۳۲، ۱۳۳، وصحیح سنن ابی داؤد (مفصل للالبانی، رقم: ۱۴۰۹ (۲ زکاۃ میں درمیانہ جانور لیا جائے گا تاکہ مالک کا نقصان ہو نہ فقراء کا۔ دودھ پیتا بچہ فقراء کے لیے نقصان دہ ہے اور دودھ دینے والا جانور دینا مالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض اہل علم نے یہ معنی کیے ہیں کہ ہم اس جانور کی زکاۃ نہیں لیں گے جو دودھ کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ ایسا جانور چرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اسے خصوصی چارا ڈالا جاتا ہے۔ (۳ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا کرنا یا اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کرنا جس طرح مالک کے لیے جائز نہیں، اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے بھی جائز نہیں، مثلاً: دو بھائیوں کی الگ الگ تیس تیس بکریوں کو ملا کر زکاۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ (۴ ’’اس نے انکار کر دیا۔‘‘ کیونکہ ایسی قیمتی چیز زکاۃ میں لینا جائز نہیں۔ (۱ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے شواہد ہیں، تاہم شواہد پر صحت اور ضعف کا حکم نہیں لگایا جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اس روایت کو حسن کہا ہے اور بعض نے صحیح اور اس کے متابعات اور شواہد ذکر کیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۲/ ۱۲۵- ۱۲۷، والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۳۱/ ۱۳۲، ۱۳۳، وصحیح سنن ابی داؤد (مفصل للالبانی، رقم: ۱۴۰۹ (۲ زکاۃ میں درمیانہ جانور لیا جائے گا تاکہ مالک کا نقصان ہو نہ فقراء کا۔ دودھ پیتا بچہ فقراء کے لیے نقصان دہ ہے اور دودھ دینے والا جانور دینا مالک کے لیے نقصان دہ ہے۔ بعض اہل علم نے یہ معنی کیے ہیں کہ ہم اس جانور کی زکاۃ نہیں لیں گے جو دودھ کے لیے رکھا گیا ہو کیونکہ ایسا جانور چرنے والا نہیں ہوتا بلکہ اسے خصوصی چارا ڈالا جاتا ہے۔ (۳ علیحدہ جانوروں کو اکٹھا کرنا یا اکٹھے جانوروں کو الگ الگ کرنا جس طرح مالک کے لیے جائز نہیں، اسی طرح زکاۃ وصول کرنے والے کے لیے بھی جائز نہیں، مثلاً: دو بھائیوں کی الگ الگ تیس تیس بکریوں کو ملا کر زکاۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ (۴ ’’اس نے انکار کر دیا۔‘‘ کیونکہ ایسی قیمتی چیز زکاۃ میں لینا جائز نہیں۔