سنن النسائي - حدیث 2446

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب عُقُوبَةِ مَانِعِ الزَّكَاةِ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ لَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا فَلَهُ أَجْرُهَا وَمَنْ أَبَى فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2446

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل زکاۃ نہ دینے والے کی سزا حضرت بہز بن حکیم کے دادا (حضرت معاویہ بن حیدہ قشیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’صحرا میں چرنے والے اونٹوں میں سے ہر چالیس اونٹوں میں ایک بنت لبون (دو سالہ اونٹنی ہے۔ (دوران وصولی اونٹوں کے حساب ومقدار سے انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔ جو شخص (خوشی سے ثواب کی خاطر زکاۃ دے گا، اس کو اس کا ثواب ملے گا اور جو دینے سے انکار کرے گا ہم زکاۃ بھی لیں گے اور (اس کے ساتھ ساتھ اس کے نصف اونٹ بھی لیں گے۔ (کیونکہ یہ زکاۃ ہمارے رب کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے کچھ بھی زکاۃ لینا (اپنی ذات کے لیے جائز نہیں۔
تشریح : (۱ ’’چرنے والے۔‘‘ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔ (۲ ’’ہر چالیس اونٹوں میں۔‘‘ یعنی ۱۲۰ اونٹوں کے بعد کیونکہ ۱۲۰ تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ (۳ ’’بنت لبون‘‘ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔ (۴ ’’انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔‘‘ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے جانور لیا جائے گا۔ (۵ ’’نصف اونٹ بھی لیں گے۔‘‘ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔ (۶ ’’جائز نہیں۔‘‘ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ (۱ ’’چرنے والے۔‘‘ ان جانوروں میں زکاۃ فرض ہے جو سارا سال یا سال کا اکثر حصہ جنگل وغیرہ میں چر کر گزارتے ہوں، ان کو خود چارا نہ ڈالنا پڑے الا شاذ ونادر۔ (۲ ’’ہر چالیس اونٹوں میں۔‘‘ یعنی ۱۲۰ اونٹوں کے بعد کیونکہ ۱۲۰ تک تو اونٹوں کی مخصوص زکاۃ ہے جس کا بیان آگے آرہا ہے۔ (۳ ’’بنت لبون‘‘ اس سے مراد وہ اونٹنی ہے جس کی عمر دو سال ہو چکی ہو اور وہ تیسرے میں شروع ہو۔ (۴ ’’انھیں الگ نہ کیا جائے گا۔‘‘ یعنی دو شریک زکاۃ کے ڈر سے اپنے اپنے اونٹ الگ نہیں کریں گے، مثلاً: ایک کے تین اور دوسرے کے دو اونٹ ہوں تو اس طرح ایک بکری زکاۃ واجب ہوتی ہے۔ جدا جدا کر لیے جائیں تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا۔ یا کچھ اونٹ کمزور یا عمر کے لحاظ سے چھوٹے ہوں تو وہ گنتی میں پورے ہی شمار ہوں گے، البتہ زکاۃ میں معین عمر والا اور درمیانہ (موٹاپے کے لحاظ سے جانور لیا جائے گا۔ (۵ ’’نصف اونٹ بھی لیں گے۔‘‘ یہ اقدام بطور سزا ہے۔ اسلامی حکومت کا اہل کار زبردستی کارندوں کے ذریعے سے زکاۃ کے ساتھ ساتھ جبراً، جس مال میں زکاۃ واجب ہوئی ہو، وہ آدھا مال بھی لے سکتا ہے اور وہ بیت المال میں جمع ہوگا۔ حدیث کی روشنی میں یہی موقف راجح ہے۔ لیکن جمہور علمائے کرام مالی سزا کو غیر مشروع قرار دیتے ہیں، ان کے بقول صرف زکاۃ ہی وصول کی جائے گی، مذکورہ حدیث کو انھوں نے وقتی سزا قرار دیا ہے یا وہ اس حکم کے نسخ کے قائل ہیں لیکن یہ دونوں باتیں ہی محل نظر ہیں جبکہ مذکورہ حدیث مذکورہ سزا کی بین دلیل ہے۔ (۶ ’’جائز نہیں۔‘‘ تاکہ کسی کے ذہن میں یہ خیال تک نہ آئے کہ نبوت کا دعویٰ مال اکٹھا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔