سنن النسائي - حدیث 2444

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب التَّغْلِيظِ فِي حَبْسِ الزَّكَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْغُدَانِيِّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا قَالَ فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا إِذَا جَاءَتْ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بَقَرٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَغَذَّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ وَآشَرَهُ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا وَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَكْثَرِهِ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ ثُمَّ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا وَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2444

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل زکاۃ روک لینے پر سخت وعید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ’’جس آدمی کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی نجدہ اور ان کی رسل میں ان کا حق (یعنی زکاۃ ادا نہ کرتا ہو۔‘‘ صحابہ نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! نجدہ اور رسل سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تنگی اور خوش حالی میں (ان کی زکاۃ ادا نہ کرتا ہو تو (قیامت کے دن وہ انتہائی موٹے، تازے اور پوری مستی کی حالت میں آئیں گے اور اس (مالک کو ان کے سامنے ایک کھلے ہموار میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا تو وہ اپنے کھروں سے (پاؤں تلے اسے مسلیں (روندیں گے۔ جب آخری گزر جائے گا تو پہلے کو پھر لایا جائے گا اور یہ کام اس کے ساتھ قیامت کے پورے دن میں کیا جاتا رہے گا۔ جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان (جنت اور جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے۔ اور وہ اپنا (جنت یا جہنم والا راستہ دیکھ لے۔ اور (اسی طرح جس شخص کے پاس گائیں ہوں اور وہ تنگ حالی اور خوش حالی میں ان کی زکاۃ نہ دیتا ہو تو وہ بھی قیامت کے دن انتہائی موٹی تازی اور پوری مستی کی حالت میں آئیں گی اور اس (مالک کو ان کے سامنے ایک کھلے ہموار میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والی اپنے سینگوں سے اس کو ٹکریں مارے گی اور ہر کھر والی اپنے کھروں کے ساتھ اس کو کچلے گی۔ جب ان میں سے آخری گزر جائے گی تو پہلی کو پھر لایا جائے گا۔ اور یہ کام اس کے ساتھ قیامت کے پورے دن میں کیا جاتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے اور وہ اپنا (جنتی یا جہنمی راستہ دیکھ لے گا۔ اسی طرح جس آدمی کے پاس بکریاں ہوں اور وہ تنگ حالی اور خوش حالی میں ان کی زکاۃ نہ دیتا ہو تو وہ قیامت کے دن انتہائی موٹی تازی اور پوری مستی کی حالت میں آئیں گی، پھر اس (مالک کو ان کے سامنے ایک کھلے اور ہموار میدان میں اوندھا لٹا دی جائے گا۔ تو ہر کھر والی اپنے کھروں کے ساتھ اس کو مسلے گی اور ہر سینگ والی اپنے سینگوں کے ساتھ اس کو ٹکریں مارے گی۔ ان میں سے کسی کا سینگ نہ مڑا ہوا ہوگا اور نہ ٹوٹا ہوا۔ جب ان میں سے آخری گزر جائے گی تو پہلی کو واپس لایا جائے گا۔ اور اس (مالک کے ساتھ یہ کام قیامت کے پورے دن ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان (جنت اور جہنم کا فیصلہ کر دیا جائے اور وہ اپنا (جنت یا جہنم والا راستہ دیکھ لے۔‘‘
تشریح : (۱ ’’ایسے دن میں۔‘‘ ہمارے لحاظ سے تو دن کی مدت کا تعین سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے مگر ظاہر ہے کہ روز محشر کا تعین سورج سے نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جس طریقے سے چاہے گا دن کا تعین ہوگا۔ ممکن ہے مطلق مدت کو دن کہہ دیا گیا ہو۔ (۲ ’’پہلی کو واپس لایا جائے گا۔‘‘ گویا جانور اس پر سے دائرے میں گزریں گے۔ اعاذنا اللہ من ذلک (۱ ’’ایسے دن میں۔‘‘ ہمارے لحاظ سے تو دن کی مدت کا تعین سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے مگر ظاہر ہے کہ روز محشر کا تعین سورج سے نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جس طریقے سے چاہے گا دن کا تعین ہوگا۔ ممکن ہے مطلق مدت کو دن کہہ دیا گیا ہو۔ (۲ ’’پہلی کو واپس لایا جائے گا۔‘‘ گویا جانور اس پر سے دائرے میں گزریں گے۔ اعاذنا اللہ من ذلک