سنن النسائي - حدیث 2439

كِتَابُ الزَّكَاةِ بَاب وُجُوبِ الزَّكَاةِ صحيح أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُسَاوِرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ أَخِيهِ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ شَطْرُ الْإِيمَانِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَالصَّلَاةُ نُورٌ وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2439

کتاب: زکاۃ سے متعلق احکام و مسائل زکاۃ کی فرضیت حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اچھی طرح وضو کرنا نصف ایمان ہے۔ الحمد للہ کہنا میزان (ترازو) کو بھر دیتا ہے۔ سبحان اللہ اور اللہ اکبر کہنا آسمان وزمین کو بھر دیتے ہیں۔ نماز نور ہے، زکاۃ (ایمان کی) دلیل ہے، صبر روشنی ہے اور قرآن مجید حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف۔‘‘
تشریح : (۱) ’’نصف ایمان۔‘‘ کیونکہ نماز ہی اصل دین ہے اور نماز وضو پر موقوف ہے جس نے وضو صحیح کر لیا، سمجھو نصف نماز پڑھ لی۔ یا نصف کی بجائے معنی کیے جائیں: وضو ایمان کا اہم جز ہے۔ (۲) ’’بھر دیتے ہیں۔‘‘ دونوں یا ان میں سے ہر ایک۔ بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ثواب پورا ہے، ناقص نہیں۔ (۳) ’’ترازو۔‘‘ ہر چیز کا حساب لگانے کے لیے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے۔ اعمال کا حساب بتلانے کے لیے بھی کوئی آلہ ہونا چاہیے، وہی میزان ہے، اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ (۴) ’’نور ہے۔‘‘ یعنی نماز دل میں نور پیدا کرتی ہے اور بصیرت کو روشن کرتی ہے جس سے انسان زندگی کا صحیح راستہ جان سکتا ہے اور اس پر چل کر جنت تک پہنچ سکتا ہے یا قیامت کے کے دن نماز کے عوض نور نصیب ہوگا یا قبر میں نور ہوگا۔ (۵) ’’روشنی ہے۔‘‘ یعنی صبر کے ساتھ انسان مصائب سے بحفاظت گزر جاتا ہے۔ گمراہیوں میں بھٹک نہیں جاتا یا آخرت میں روشنی نصیب ہوگی۔ (۶) ’’تیرے حق میں یا تیرے خلاف۔‘‘ اگر قرآن مجید پر عمل کیا تو حق میں ورنہ خلاف کہ حق کا راستہ معلوم ہونے کے باوجود گمراہ رہا۔ (۱) ’’نصف ایمان۔‘‘ کیونکہ نماز ہی اصل دین ہے اور نماز وضو پر موقوف ہے جس نے وضو صحیح کر لیا، سمجھو نصف نماز پڑھ لی۔ یا نصف کی بجائے معنی کیے جائیں: وضو ایمان کا اہم جز ہے۔ (۲) ’’بھر دیتے ہیں۔‘‘ دونوں یا ان میں سے ہر ایک۔ بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ثواب پورا ہے، ناقص نہیں۔ (۳) ’’ترازو۔‘‘ ہر چیز کا حساب لگانے کے لیے کوئی نہ کوئی آلہ ہوتا ہے۔ اعمال کا حساب بتلانے کے لیے بھی کوئی آلہ ہونا چاہیے، وہی میزان ہے، اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ (۴) ’’نور ہے۔‘‘ یعنی نماز دل میں نور پیدا کرتی ہے اور بصیرت کو روشن کرتی ہے جس سے انسان زندگی کا صحیح راستہ جان سکتا ہے اور اس پر چل کر جنت تک پہنچ سکتا ہے یا قیامت کے کے دن نماز کے عوض نور نصیب ہوگا یا قبر میں نور ہوگا۔ (۵) ’’روشنی ہے۔‘‘ یعنی صبر کے ساتھ انسان مصائب سے بحفاظت گزر جاتا ہے۔ گمراہیوں میں بھٹک نہیں جاتا یا آخرت میں روشنی نصیب ہوگی۔ (۶) ’’تیرے حق میں یا تیرے خلاف۔‘‘ اگر قرآن مجید پر عمل کیا تو حق میں ورنہ خلاف کہ حق کا راستہ معلوم ہونے کے باوجود گمراہ رہا۔