سنن النسائي - حدیث 2436

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ يَوْمَيْنِ مِنْ الشَّهْرِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَنْبَأَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّوْمِ فَقَالَ صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَاسْتَزَادَهُ قَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا فَزَادَهُ قَالَ صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا فَمَا كَادَ أَنْ يَزِيدَهُ فَلَمَّا أَلَحَّ عَلَيْهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2436

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل مہینے میں دو دن روزہ رکھنا حضرت ابوعقرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے نبیﷺ سے نفل روزے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’مہینے میں ایک روزہ رکھ لیا کر۔‘‘ میں نے مزید اجازت مانگی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! میں اپنے آپ کو طاقتور محسوس کرتا ہوں۔ آپ نے مزید اجازت دے دی۔ اور فرمایا: ’’ہر مہینے دو روزے رکھ لیا کر۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں اپنے آپ کو طاقتور سمجھتا ہوں۔ رسول اللہﷺ نے (میری بات دوہراتے ہوئے) فرمایا: ’’میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔ میں اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا ہوں۔‘‘ امید نہیں تھی کہ آپ مزید اجازت فرمائیں گے۔ جب میں نے اصرار کیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ہر مہینے تین روزے رکھ لیا کر۔‘‘
تشریح : گزشتہ تمام روایات سے معلوم ہوا نفل روزے کم سے کم رکھے جائیں تاکہ پابندی ہو سکے اور حقوق العباد اور معاش میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔ اس سے زیادہ روزے رکھنا مستحسن نہیں، جائز ہیں۔ نفل روزوں میں اپنی سہولت کا خیال رکھے۔ تینوں روزے اکٹھے رکھنا ضروری نہیں۔ ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لے۔ یا سوموار اور جمعرات کے حساب سے پورے کرے۔ مشقت نہ ہو تو چاندنی راتوں والے دنوں کے تین روزے اکٹھے رکھنا افضل ہے۔ مسلسل روزے رکھنا منع ہے۔ شعبان کے آخری ایک دو دن، عیدین اور ایام تشریق کے روزے رکھنا بھی منع ہے۔ صرف جمعے کے دن روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ اسی طرح ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ آگے یا پیچھے کوئی اور روزہ بھی رکھا جائے۔ مخصوص روزے، مثلاً: شوال کے چھ روزے اکٹھے رکھے جا سکتے ہیں، ذوالحجہ کے نو روزے اکٹھے رکھے جائیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سارے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں۔ سفر میں مشقت نہ ہو تو رمضان المبارک کے روزے رکھ لینا بہتر ہے اور اگر مشقت ہو یا دوسروں کے لیے بوجھ بنے تو نہ رکھنا بہتر ہے۔ جہاد کے دوران میں بھی اگر لڑائی ہو رہی ہے، یا عنقریب ہونے والی ہے تو قوت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنا افضل ہے، بعد میں روزے پورے کر لے۔ اگر لڑائی دو رہے تو روزے رکھنا بہتر ہے۔ دوران سفر میں نفل روزے رکھنا یا نہ رکھنا مرضی پر موقوف ہے مگر دفوسروں کے لیے بوجھ نہ بنے۔ مشقت محسوس ہونے پر یا مہمان کی آمد پر یا انتہائی پسندیدہ کھانا میسر آنے پر نفل روزہ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعد میں نفل روزے کی قضا ادا کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں۔ نفل روزہ زوال سے پہلے دن کے وقت بھی رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ پہلے کچھ کھایا نہ ہو۔ معذور شخص رمضان المبارک کے دوران میں احتراماً سامنے کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ واللہ اعلم گزشتہ تمام روایات سے معلوم ہوا نفل روزے کم سے کم رکھے جائیں تاکہ پابندی ہو سکے اور حقوق العباد اور معاش میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔ اس سے زیادہ روزے رکھنا مستحسن نہیں، جائز ہیں۔ نفل روزوں میں اپنی سہولت کا خیال رکھے۔ تینوں روزے اکٹھے رکھنا ضروری نہیں۔ ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لے۔ یا سوموار اور جمعرات کے حساب سے پورے کرے۔ مشقت نہ ہو تو چاندنی راتوں والے دنوں کے تین روزے اکٹھے رکھنا افضل ہے۔ مسلسل روزے رکھنا منع ہے۔ شعبان کے آخری ایک دو دن، عیدین اور ایام تشریق کے روزے رکھنا بھی منع ہے۔ صرف جمعے کے دن روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ اسی طرح ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ آگے یا پیچھے کوئی اور روزہ بھی رکھا جائے۔ مخصوص روزے، مثلاً: شوال کے چھ روزے اکٹھے رکھے جا سکتے ہیں، ذوالحجہ کے نو روزے اکٹھے رکھے جائیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سارے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں۔ سفر میں مشقت نہ ہو تو رمضان المبارک کے روزے رکھ لینا بہتر ہے اور اگر مشقت ہو یا دوسروں کے لیے بوجھ بنے تو نہ رکھنا بہتر ہے۔ جہاد کے دوران میں بھی اگر لڑائی ہو رہی ہے، یا عنقریب ہونے والی ہے تو قوت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنا افضل ہے، بعد میں روزے پورے کر لے۔ اگر لڑائی دو رہے تو روزے رکھنا بہتر ہے۔ دوران سفر میں نفل روزے رکھنا یا نہ رکھنا مرضی پر موقوف ہے مگر دفوسروں کے لیے بوجھ نہ بنے۔ مشقت محسوس ہونے پر یا مہمان کی آمد پر یا انتہائی پسندیدہ کھانا میسر آنے پر نفل روزہ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعد میں نفل روزے کی قضا ادا کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں۔ نفل روزہ زوال سے پہلے دن کے وقت بھی رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ پہلے کچھ کھایا نہ ہو۔ معذور شخص رمضان المبارک کے دوران میں احتراماً سامنے کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ واللہ اعلم