سنن النسائي - حدیث 243

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب ذِكْرِ الْأَمْرِ بِذَلِكَ لِلْحَائِضِ عِنْدَ الِاغْتِسَالِ لِلْإِحْرَامِ صحيح أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا أَشْهَبُ عَنْ مَالِكٍ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ وَهِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ حَدَّثَاهُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَأَهْلَلْتُ بِالْعُمْرَةِ فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ وَدَعِي الْعُمْرَةَ فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ أَرْسَلَنِي مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ فَقَالَ هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ لَمْ يَرْوِهِ أَحَدٌ إِلَّا أَشْهَبُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 243

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ حائضہ عورت کو غسل احرام کے وقت مینڈھیاں کھولنے کا حکم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سال نکلے۔ میں نے عمرے کا احرام باندھا، چنانچہ میں مکہ آئی تو حیض کی حالت میں تھی، لہٰذا میں بیت اللہ کا طواف کرسکی نہ صفا مروہ کی سعی۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا، ’’سر کے بال کھول لو۔ (غسل کرکے) کنگھی کرلو اور حج کا احرام باندھ لو لیکن عمرہ چھوڑ دو۔‘‘ میں نے اسی طرح کیا۔ جب ہم نے حج مکمل کر لیا تو آپ نے مجھے (میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تنعیم کی طرف بھیجا تو میں نے عمرہ کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ تمھارے (اس) عمرے کی جگہ ہے۔‘‘ امام ابو عبدالرحمن (نسائی) رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں یہ حدیث مالک عن ھشام بن عروہ کی سند سے غریب ہے کیونکہ اشہب کے سوا کسی نے اسے (اس طرح) بیان نہیں کیا۔
تشریح : (۱) امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اشہب نے (اس حدیثض میں امام مالک کا اساتذ ابن شہاب زہری کے ساتھ ہشام بن عروہ کو بھی بتلایا ہے جب کہ عام رواۃ اس روایت میں امام مالک کا استاذ صرف زہری ہی کو بتاتے ہیں۔ جب کسی راوی کی تائید کوئی اور ساتھی نہ کرے تو اس کی روایت کو ’’غریب‘‘ کہا جاتا ہے۔ (۲) حیض کی حالت میں چونکہ بیت اللہ میں داخلہ منع ہے، لہٰذا حائضہ عورت کو طواف منع ہے اور سعی چونکہ طواف کے تابع ہے، اس لیے وہ بھی منع ہے۔ (۳) تنعیم مکہ سے مدینہ منورہ کے راستے پر قریب ترین حل ہے، یعنی یہاں حرم ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ خصوصی حکم فرمایا کہ وہ تنعیمم سے احرام باندھ کر آ جائیں اور عمرہ کرلیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حیض کی وجہ سے عمرہ رہ گیا تھا۔ یہ اجازت ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ وہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ جائے اور عمرہ کرلے جیسا کہ آفاق سے جانے والے بہت سے حاجی ایسا کرتے ہیں اور بعض علماء اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ جواز محل نظر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ دوبارہ عمرے کے لیے میقات پر جا کر وہاں سے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے۔ یا پھر مذکورہ حدیث کے پیش نظر تنعیم سے احرام باندھنے کی یہ اجازت صرف ان خواتین کے لیے ہے جو مخصوص ایام کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی ہوں۔ واللہ أعلم۔ (۴) چونکہ حج کا احرام کئی دن جاری رہتا ہے، لہٰذا مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح غسل کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنگی نہ ہو۔ اس غسل کا حیض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صفائی کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر محرم کے لیے مستحب ہے۔ (۱) امام صاحب کا مقصود یہ ہے کہ اشہب نے (اس حدیثض میں امام مالک کا اساتذ ابن شہاب زہری کے ساتھ ہشام بن عروہ کو بھی بتلایا ہے جب کہ عام رواۃ اس روایت میں امام مالک کا استاذ صرف زہری ہی کو بتاتے ہیں۔ جب کسی راوی کی تائید کوئی اور ساتھی نہ کرے تو اس کی روایت کو ’’غریب‘‘ کہا جاتا ہے۔ (۲) حیض کی حالت میں چونکہ بیت اللہ میں داخلہ منع ہے، لہٰذا حائضہ عورت کو طواف منع ہے اور سعی چونکہ طواف کے تابع ہے، اس لیے وہ بھی منع ہے۔ (۳) تنعیم مکہ سے مدینہ منورہ کے راستے پر قریب ترین حل ہے، یعنی یہاں حرم ختم ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے یہ خصوصی حکم فرمایا کہ وہ تنعیمم سے احرام باندھ کر آ جائیں اور عمرہ کرلیں کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حیض کی وجہ سے عمرہ رہ گیا تھا۔ یہ اجازت ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ وہ تنعیم سے احرام باندھ کر آ جائے اور عمرہ کرلے جیسا کہ آفاق سے جانے والے بہت سے حاجی ایسا کرتے ہیں اور بعض علماء اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیتے ہیں۔ لیکن یہ جواز محل نظر ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ دوبارہ عمرے کے لیے میقات پر جا کر وہاں سے احرام باندھ کر آنا ضروری ہے۔ یا پھر مذکورہ حدیث کے پیش نظر تنعیم سے احرام باندھنے کی یہ اجازت صرف ان خواتین کے لیے ہے جو مخصوص ایام کی وجہ سے عمرہ نہ کرسکی ہوں۔ واللہ أعلم۔ (۴) چونکہ حج کا احرام کئی دن جاری رہتا ہے، لہٰذا مینڈھیاں کھول کر اچھی طرح غسل کرنے کا حکم دیا تاکہ بعد میں تنگی نہ ہو۔ اس غسل کا حیض سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ صفائی کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر محرم کے لیے مستحب ہے۔