كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الزِّيَادَةِ فِي الصِّيَامِ وَالنُّقْصَانِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِيهِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ سَمِعْتُ عَطَاءً يَقُولُ إِنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَصُومُ أَسْرُدُ الصَّوْمَ وَأُصَلِّي اللَّيْلَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ وَإِمَّا لَقِيَهُ قَالَ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلَا تُفْطِرُ وَتُصَلِّي اللَّيْلَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنَّ لِعَيْنِكَ حَظًّا وَلِنَفْسِكَ حَظًّا وَلِأَهْلِكَ حَظًّا وَصُمْ وَأَفْطِرْ وَصَلِّ وَنَمْ وَصُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ قَالَ إِنِّي أَقْوَى لِذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ صُمْ صِيَامَ دَاوُدَ إِذًا قَالَ وَكَيْفَ كَانَ صِيَامُ دَاوُدَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ قَالَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى قَالَ وَمَنْ لِي بِهَذَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
اس حدیث میں اس سے کم وبیش روزوں کا ذکر اور اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنے والوں کے اختلاف کا ذکر
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو یہ بات پہنچی کہ میں لگاتار روزے رکھتا ہوں اور ساری ساری رات نماز پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ نے مجھے بلا بھیجا، یا میں آپ کو ملا (یا آپ مجھے ملے) آپ نے فرمایا: ’’کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا کہ تو مسلسل روزے رکھتا ہے، کب ھی ناغہ نہیں کرتا، اور ساری ساری رات نماز پڑھتا رہتا ہے؟ ایسے نہ کر۔ تیری آنکھ کو اس کا حق (نیند) ملنا چاہیے اور تیری بیوی کو بھی اس کا حق (شب بسری) ملنا چاہیے۔ روزے بھی رکھ، ناغے بھی کر، نماز بھی پڑھ اور نیند بھی پوری کر۔ ہر دس دن میں ایک دن روزہ رکھ۔ باقی نو دن (کے روزوں کا ثواب بھی تجھے مل جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تب حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح روزے رکھ۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ تعالیٰ کے نبی! حضرت داؤد علیہ السلام کس طرح روزے رکھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے اور جب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو بھاگتے نہ تھے۔‘‘ میں کہا: اے اللہ کے نبی! میرے لیے اس (آخری) بات کا کون ضامن ہوگا؟ (یعنی یہ بہت مشکل کام ہے، روزہ بھی اور جہاد بھی)۔
تشریح :
’’آپ نے مجھے بھلا بھیجا۔‘‘ روایات میں مختلف الفاظ ہیں: کسی میں ہے کہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا، میں گیا۔ کسی میں ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائے۔ کسی میں ہے کہ مجھے میرے والد نبیﷺ کے پاس لے کر گئے۔ تطبیق یوں ممکن ہے کہ ان کے والد محترم کے کہنے پر رسول اللہﷺ نے انھیں ساتھ لانے کو کہا، نیز کسی اور کے ذریعے سے آنے کا پیغام بھی بھیج دیا، پھر باپ بیٹا دونوں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے مختصر سی بات کی، پھر ان کے گھر جا کر تفصیلی بات چیت کی کیونکہ علیحدگی میں کوئی جھجک نہیں ہوتی۔
’’آپ نے مجھے بھلا بھیجا۔‘‘ روایات میں مختلف الفاظ ہیں: کسی میں ہے کہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا، میں گیا۔ کسی میں ہے کہ آپ میرے پاس تشریف لائے۔ کسی میں ہے کہ مجھے میرے والد نبیﷺ کے پاس لے کر گئے۔ تطبیق یوں ممکن ہے کہ ان کے والد محترم کے کہنے پر رسول اللہﷺ نے انھیں ساتھ لانے کو کہا، نیز کسی اور کے ذریعے سے آنے کا پیغام بھی بھیج دیا، پھر باپ بیٹا دونوں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے مختصر سی بات کی، پھر ان کے گھر جا کر تفصیلی بات چیت کی کیونکہ علیحدگی میں کوئی جھجک نہیں ہوتی۔