كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الزِّيَادَةِ فِي الصِّيَامِ وَالنُّقْصَانِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ هُوَ الشَّاعِرُ يُحَدِّثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو إِنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ وَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ الْعَيْنُ وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ صَوْمُ الدَّهْرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ مِنْ الشَّهْرِ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
اس حدیث میں اس سے کم وبیش روزوں کا ذکر اور اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنے والوں کے اختلاف کا ذکر
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عبداللہ بن عمرو! تو ہمیشہ روزے رکھتا ہے اور ساری ساری رات عبادت کرتا ہے۔ اور جب تو ایسے کرے گا، تیری آنکھیں اندر کو دھنس جائیں گی اور طبیعت تھک جائے گی۔ اس شخص کا کوئی روزہ نہیں جس نے ہمیشہ روزہ رکھا۔ ہمیشہ روزہ رکھنے کا جائز طریقہ یہ ہے کہ ہر مہینے سے تین دن روزہ رکھا جائے۔ یہ (ثواب کے لحاظ سے) زمانے بھر کا روزہ بن جائے گا۔‘‘ میں نے کہا: میں اس سے زائد کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔ اور جب دشمن کا سامنا ہوتا تھا تو بھاگتے نہ تھے۔‘‘
تشریح :
روزے سے انسانی جسم کے غیر ضروری اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں جس سے انسان جفا کش بن جاتا ہے۔ قوت برداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھوک، پیاس، تکلیف اور مشقت برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اخلاقی وروحانی طور پر انسان قوی ہو جاتا ہے۔ اور جنگ میں انھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ بلاناغہ روزہ انسان کو کمزور اور عاجز کر دیتا ہے، لہٰذا وہ جائز نہیں۔
روزے سے انسانی جسم کے غیر ضروری اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں جس سے انسان جفا کش بن جاتا ہے۔ قوت برداشت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بھوک، پیاس، تکلیف اور مشقت برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اخلاقی وروحانی طور پر انسان قوی ہو جاتا ہے۔ اور جنگ میں انھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، البتہ بلاناغہ روزہ انسان کو کمزور اور عاجز کر دیتا ہے، لہٰذا وہ جائز نہیں۔