سنن النسائي - حدیث 2393

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ يَوْمٍ وَإِفْطَارُ يَوْمٍ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ فِي ذَلِكَ لِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْمَعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ قَالَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُجْرَتِي فَقَالَ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ قَالَ بَلَى قَالَ فَلَا تَفْعَلَنَّ نَمْ وَقُمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ فَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِزَوْجَتِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّ لِصَدِيقِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَإِنَّهُ عَسَى أَنْ يَطُولَ بِكَ عُمُرٌ وَإِنَّهُ حَسْبُكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثًا فَذَلِكَ صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ قَالَ صُمْ مِنْ كُلِّ جُمُعَةٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ قُلْتُ إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ قَالَ صُمْ صَوْمَ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قُلْتُ وَمَا كَانَ صَوْمُ دَاوُدَ قَالَ نِصْفُ الدَّهْرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2393

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل ایک دن روزہ رکھنا اور ایک د ن افطار کرنا اور اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنے والوں کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میرے حجرے میں تشریف لائے اور فرمانے لگے: ’’کیا مجھے یہ بتایا نہیں گیا کہ تو ساری رات نماز پڑھتا رہتا ہے اور ہر دن روزہ رکھتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ’’ایسے نہ کر۔ سو بھی اور قیام بھی کر۔ روزہ بھی رکھ اور ناغہ بھی کر۔ یقینا تیری آنکھ کا تجھ پر حق ہے، تیرے جسم کا تجھ پر حق ہے، تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے دوست کا بھی تجھ پر حق ہے۔ امید ہے تیری عمر لمبی ہوگی، لہٰذا تجھے یہ کافی ہے کہ ہر مہینے سے تین روزے رکھ لیا کر۔ یہ (ثواب کے لحاظ سے) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہو جائیں گے کیونکہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ہے۔ میں نے عرض کیا: میں زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے آپ پر سختی کی تو مجھ پر سختی ڈال دی گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’ہر ہفتے میں تین روزے رکھ لیا کر۔‘‘ میں نے کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اس طرح میں نے اپنے آپ پر سختی کی تو مجھ پر سختی ڈال دی گئی۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھ لیا کر۔‘‘ میں نے کہا: حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’نصف زمانہ۔ (یعنی ایک دن روزہ ایک دن ناغہ)۔‘‘
تشریح : (۱) ’’تجھ پر حق ہے۔‘‘ لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ آنکھ کا حق نیند، جسم کا حق آرام و خوراک، بیوی ک حق اس کے ساتھ شب بسری، مہمان کا حق مہمان نوازی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا، دوست کا حق اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا وغیرہ ہے۔ (۲) ’’تیری عمر لمبی ہوگی۔‘‘ اور بڑی عمر میں زیادہ عبادت کو قائم نہ رکھ سکے گا، لہٰذا اتنی عبادت شروع کر جسے قائم رکھ سکے۔ مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جوانی اور عبادت کے جوش میں سمجھ نہ سکے اور آخر عم رمیں تنگ ہوئے جسے وہ سختی ڈالنے سے تعبیر فرما رہے تھے۔ (۱) ’’تجھ پر حق ہے۔‘‘ لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق دے۔ آنکھ کا حق نیند، جسم کا حق آرام و خوراک، بیوی ک حق اس کے ساتھ شب بسری، مہمان کا حق مہمان نوازی اور اس کے ساتھ مل کر کھانا، دوست کا حق اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا وغیرہ ہے۔ (۲) ’’تیری عمر لمبی ہوگی۔‘‘ اور بڑی عمر میں زیادہ عبادت کو قائم نہ رکھ سکے گا، لہٰذا اتنی عبادت شروع کر جسے قائم رکھ سکے۔ مگر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جوانی اور عبادت کے جوش میں سمجھ نہ سکے اور آخر عم رمیں تنگ ہوئے جسے وہ سختی ڈالنے سے تعبیر فرما رہے تھے۔