سنن النسائي - حدیث 2392

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ يَوْمٍ وَإِفْطَارُ يَوْمٍ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ فِي ذَلِكَ لِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فِيهِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ زَوَّجَنِي أَبِي امْرَأَةً فَجَاءَ يَزُورُهَا فَقَالَ كَيْفَ تَرَيْنَ بَعْلَكِ فَقَالَتْ نِعْمَ الرَّجُلُ مِنْ رَجُلٍ لَا يَنَامُ اللَّيْلَ وَلَا يُفْطِرُ النَّهَارَ فَوَقَعَ بِي وَقَالَ زَوَّجْتُكَ امْرَأَةً مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَعَضَلْتَهَا قَالَ فَجَعَلْتُ لَا أَلْتَفِتُ إِلَى قَوْلِهِ مِمَّا أَرَى عِنْدِي مِنْ الْقُوَّةِ وَالِاجْتِهَادِ فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَكِنِّي أَنَا أَقُومُ وَأَنَامُ وَأَصُومُ وَأُفْطِرُ فَقُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ قَالَ صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَقُلْتُ أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ صُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا قُلْتُ أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ قَالَ اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ ثُمَّ انْتَهَى إِلَى خَمْسَ عَشْرَةَ وَأَنَا أَقُولُ أَنَا أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2392

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل ایک دن روزہ رکھنا اور ایک د ن افطار کرنا اور اس بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنے والوں کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد نے ایک خاتون سے میری شادی کر دی، پھر وہ اس سے ملنے آئے تو پوچھا: تیرا خاوند کیسا ہے؟ وہ کہنے لگی: اچھا آدمی ہے جو رات کو سوتا نہیں اور دن کو روزے سے ناغہ نہیں کرتا۔ تو والدہ محترم نے مجھے سخت سست کہا اور فرمانے لگے کہ میں نے ایک (بہترین) مسلمان عورت سے تیری شادی کی ہے اور تو نے اسے بن بیاہی بنا رکھا ہے؟ لیکن میں ان کے کہنے کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا کیونکہ میں اپنے اندر (عبادت کی) قوت اور شوق پاتا تھا۔ یہ بات نبیﷺ کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: ’’لیکن میں تو رات کو نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ روزہ بھی رکھتا ہوں اور ناغے بھی کرتا ہوں، چنانچہ تو نماز بھی پڑھ اور سو بھی۔ روزے بھی رکھ اور ناغے بھی کر۔‘‘ میں نے عرض کیا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر داؤد علیہ السلام جیسے روزے رکھ۔ ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن ناغہ کر۔‘ـ‘ میں نے کہا: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ (مگر آپ نے اجازت نہ دی)، پھر آپ نے فرمایا: ’’ایک ماہ میں (تہجد کے دوران میں) ایک دفعہ قرآن ختم کیا کر۔‘‘ لیکن پھر (میرے بار بار کہنے پر) آپ پندرہ تک آگئے۔ میں اب بھی یہی کہہ رہا تھا: مجھے اس سے زائد کی طاقت ہے۔
تشریح : اس حدیث میں بھی راوی نے اختصار کیا ہے۔ اسی روایت کی دوسری اسانید سے مروی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بار بار اصرار کرنے پر رسول اللہﷺ ایک ماہ، پچیس دن، پھر بیس، پندرہ، دس، سات، پانچ سے گزرتے ہوئے تین دن پر آگئے تھے، یعنی تین راتوں میں قرآن ختم کر لیا کر۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں دی تاکہ صحیح تلفظ، توجہ اور حضور قلب سے اسے پڑھا جائے۔ اس حدیث میں بھی راوی نے اختصار کیا ہے۔ اسی روایت کی دوسری اسانید سے مروی الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بار بار اصرار کرنے پر رسول اللہﷺ ایک ماہ، پچیس دن، پھر بیس، پندرہ، دس، سات، پانچ سے گزرتے ہوئے تین دن پر آگئے تھے، یعنی تین راتوں میں قرآن ختم کر لیا کر۔ اس سے زائد کی اجازت نہیں دی تاکہ صحیح تلفظ، توجہ اور حضور قلب سے اسے پڑھا جائے۔