سنن النسائي - حدیث 2389

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ ثُلُثَيْ الدَّهْرِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ قَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ قَالَ لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ أَوْ لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ أَوَ يُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ قَالَ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا قَالَ ذَلِكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ قَالَ وَدِدْتُ أَنِّي أُطِيقُ ذَلِكَ قَالَ ثُمَّ قَالَ ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ هَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2389

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل دو تہائی دنوں کے روزے اور اس بارے میں وارد حدیث کے بیان میں راویوں کے اختلاف کا ذکر حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ہمیشہ بلاناغہ روزہ رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ چھوڑا۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو دو دن روزہ رکھتا ہے، ایک دن ناغہ کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’کیا کوئی شخص (ہمیشہ) اس کی طاقت رکھ سکتا ہے؟‘‘ انھوں نے پھر عرض کیا: اس شخص کے بارے میں کیا فرمان ہے جو ایک دن روزہ رکھتا ہے، ایک دن ناغہ کرتا ہے؟ اپ نے فرمایا: ’’یہ تو حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔‘‘ انھوں نے عرض کیا: اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے جو ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، دو دن افطار کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’میری خواہش ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میری خواہش ہے کہ مجھے اس کی طاقت ہوتی۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ہر مہینے میں تین روزے رکھ لینا اور ہر رمضان کے روزے رکھ لینا (ثواب کے لحاظ سے) زمانہ بھر کے روزے رکھ لینے کے برابر ہے۔‘‘
تشریح : ’’کیا کوئی شخص اس کی طاقت رکھ سکتا ہے؟‘‘ مقصد کراہت کا اظہار ہے کہ ساری زندگی طاقت نہ رکھے گا۔ آخر اس عمل کو چھوڑنا پڑے گا، لہٰذا یہ درست نہیں۔ (مزید دیکھئے حدیث: ۲۳۸۷) ’’کیا کوئی شخص اس کی طاقت رکھ سکتا ہے؟‘‘ مقصد کراہت کا اظہار ہے کہ ساری زندگی طاقت نہ رکھے گا۔ آخر اس عمل کو چھوڑنا پڑے گا، لہٰذا یہ درست نہیں۔ (مزید دیکھئے حدیث: ۲۳۸۷)