سنن النسائي - حدیث 2387

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ ثُلُثَيْ الدَّهْرِ وَذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي عَمَّارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَصُومُ الدَّهْرَ قَالَ وَدِدْتُ أَنَّهُ لَمْ يَطْعَمْ الدَّهْرَ قَالُوا فَثُلُثَيْهِ قَالَ أَكْثَرَ قَالُوا فَنِصْفَهُ قَالَ أَكْثَرَ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2387

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل دو تہائی دنوں کے روزے اور اس بارے میں وارد حدیث کے بیان میں راویوں کے اختلاف کا ذکر نبیﷺ کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے کہا گیا کہ ایک آدمی ہمیشہ روزے رکھتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کاش وہ کبھی کھانا نہ کھانا (اور مر جاتا)۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: دو تہائی دنوں کے روزے کیسے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’۔یہ بھی بہت زیادہ ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا: نصف دنوں کے روزے؟ آپ نے فرمایا: ’۔یہ بھی زیادہ ہی ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’میں تمھیں وہ روزے نہ بتاؤں جو سینے کا کینہ (دل کے مفاسد) دور کرنے کے لیے کافی ہیں؟ ہر ماہ میں تین دن کے روزے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’کاش وہ کبھی نہ کھاتا۔‘‘ یہ اظہار ناراضی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تو مرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کبھی بھی کھانا نہ کھاتا اور جلدی مر جاتا۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں صرف ڈانٹنا مقصد ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔ (۲) ’’بہت زیادہ ہیں۔‘‘ گویا ہر مہینے دو تہائی (یعنی بیس) دنوں کے روزے رکھنا بھی اولیٰ نہیں کہ یہ بھی صیام داؤد علیہ السلام سے زیادتی ہے۔ اگرچہ یہ جائز ہیں مگر افضل پھر بھی نہیں۔ (۳) ’’یہ بھی زیادہ ہیں۔‘‘ کیونکہ یہ نفل روزوں کا آخری درجہ ہے، البتہ منع نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی زیادہ روزے رکھتا تھا، لہٰذا آپ نے اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ سمجھے تاکہ اس کا تشدد ختم ہو۔ (۴) مہینے میں تین روزے بہترین ہیں کیونکہ ان سے روزے کا مقصد بھی بخوبی پورا ہوتا ہے، یعنی دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا اور انسان جسمانی کمزوری سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز تین کا ثواب تیس، یعنی پورے مہینے کے برابر ہے، لہٰذا اسی پر عمل افضل ہے۔ (۱) ’’کاش وہ کبھی نہ کھاتا۔‘‘ یہ اظہار ناراضی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تو مرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کبھی بھی کھانا نہ کھاتا اور جلدی مر جاتا۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں صرف ڈانٹنا مقصد ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔ (۲) ’’بہت زیادہ ہیں۔‘‘ گویا ہر مہینے دو تہائی (یعنی بیس) دنوں کے روزے رکھنا بھی اولیٰ نہیں کہ یہ بھی صیام داؤد علیہ السلام سے زیادتی ہے۔ اگرچہ یہ جائز ہیں مگر افضل پھر بھی نہیں۔ (۳) ’’یہ بھی زیادہ ہیں۔‘‘ کیونکہ یہ نفل روزوں کا آخری درجہ ہے، البتہ منع نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی زیادہ روزے رکھتا تھا، لہٰذا آپ نے اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ سمجھے تاکہ اس کا تشدد ختم ہو۔ (۴) مہینے میں تین روزے بہترین ہیں کیونکہ ان سے روزے کا مقصد بھی بخوبی پورا ہوتا ہے، یعنی دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا اور انسان جسمانی کمزوری سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز تین کا ثواب تیس، یعنی پورے مہینے کے برابر ہے، لہٰذا اسی پر عمل افضل ہے۔