سنن النسائي - حدیث 2346

كِتَابُ الصِّيَامِ صَوْمُ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2346

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اللہ کے نبی حضرت داود علیہ السلام کے روزے کا بیان حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل کو سب سے زیادہ پسندیدہ روزے داؤد علیہ السلام کے روزے ہیں۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ نفل نماز بھی داؤد علیہ السلام کی (رات کی) نماز ہے۔ وہ آدھی رات تک سوتے تھے، پھر ایک تہائی رات نماز پڑْتے اور آخری چھٹا حصہ پھر سو جاتے تھے۔‘‘
تشریح : ’’سب سے زیادہ پسندیدہ۔‘‘ کیونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے اور نماز میں اعتدال تھا۔ جس سے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی فرق نہ آتا تھا۔ اگر کوئی شخص اعتدال سے ہٹ جائے گا، مثلاً وہ ان سے زیادہ روزے رکھے گا یا ہمیشہ ساری رات قیام کرے گا تو حقوق العباد کا مجرم ہوگا، بلکہ وہ اپنے نفس کا بھی مجرم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے س اعتدال سے بڑھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ راوی حدیث صحابی رضی اللہ عنہ کو صراحتاً فرمایا کہ اس سے افضل روزے ممکن نہیں۔ ’’سب سے زیادہ پسندیدہ۔‘‘ کیونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے اور نماز میں اعتدال تھا۔ جس سے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی فرق نہ آتا تھا۔ اگر کوئی شخص اعتدال سے ہٹ جائے گا، مثلاً وہ ان سے زیادہ روزے رکھے گا یا ہمیشہ ساری رات قیام کرے گا تو حقوق العباد کا مجرم ہوگا، بلکہ وہ اپنے نفس کا بھی مجرم ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے س اعتدال سے بڑھنے کی اجازت نہیں دی بلکہ راوی حدیث صحابی رضی اللہ عنہ کو صراحتاً فرمایا کہ اس سے افضل روزے ممکن نہیں۔