سنن النسائي - حدیث 2345

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ حَفْصَةَ فِي ذَلِكَ صحيح موقوف قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ لَا يَصُومُ إِلَّا مَنْ أَجْمَعَ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2345

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس بارے میں حضرت حفصہ کی حدیث میں ناقلین کا اختلاف حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: روزے نہ رکھے مگر وہ شخص جس نے طلوع فجر سے پہلے روزے کی نیت کر لی۔
تشریح : (۱) مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کبھی حضرت حفصہؓ کا اپنا قول بتایا جاتا ہے، کبھی رسول اللہﷺ کا فرمان اور کبھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، اس لیے اس حدیث کے بارے میں محدثین مختلف ہیں۔ مشہور ائمہ حدیث، مثلاً: امام بخاری، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمنذی اور امام احمد رحمہم اللہ اس روایت کو مقوفاً صحیح سمجھتے ہیں، یعنی یہ حضرت حفصہ یا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا اپنا قول ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں، جبکہ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن حزم اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اسے مرفوع بھی صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا فرمان بھی ہے، بالفرض اگر اسے مرفوعاً صحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ حکماً مرفوع ہی بنتی ہے کیونکہ حضرت حفصہؓ کے اس فتوے کی بنیاد اپنی رائے یا قیاس نہیں، یقینا اس کی بنیاد رسول اللہﷺ کا قول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۱/ ۲۴۷- ۲۴۹) واللہ اعلم۔ (۲)نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جا سکتی ہے۔ (۳)فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔ (۱) مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت کبھی حضرت حفصہؓ کا اپنا قول بتایا جاتا ہے، کبھی رسول اللہﷺ کا فرمان اور کبھی ابن عمر رضی اللہ عنہ کا قول، اس لیے اس حدیث کے بارے میں محدثین مختلف ہیں۔ مشہور ائمہ حدیث، مثلاً: امام بخاری، امام ابوداؤد، امام نسائی، امام ترمنذی اور امام احمد رحمہم اللہ اس روایت کو مقوفاً صحیح سمجھتے ہیں، یعنی یہ حضرت حفصہ یا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم کا اپنا قول ہے، رسول اللہﷺ سے مروی نہیں، جبکہ امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان، امام دارقطنی، امام ابن حزم اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اسے مرفوع بھی صحیح قرار دیا ہے، یعنی یہ رسول اللہﷺ کا فرمان بھی ہے، بالفرض اگر اسے مرفوعاً صحیح تسلیم نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ حکماً مرفوع ہی بنتی ہے کیونکہ حضرت حفصہؓ کے اس فتوے کی بنیاد اپنی رائے یا قیاس نہیں، یقینا اس کی بنیاد رسول اللہﷺ کا قول ہی ہو سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبیٰ شرح سنن النسائی: ۲۱/ ۲۴۷- ۲۴۹) واللہ اعلم۔ (۲)نفلی روزے کی نیت دن کے وقت بھی کی جا سکتی ہے۔ (۳)فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے۔ گویا غروب آفتاب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے۔