كِتَابُ الصِّيَامِ النِّيَّةُ فِي الصِّيَامِ وَالِاخْتِلَافُ عَلَى طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ فِي خَبَرِ عَائِشَةَ فِيهِ حسن أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْتُ لَا قَالَ فَإِنِّي صَائِمٌ ثُمَّ مَرَّ بِي بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَقَدْ أُهْدِيَ إِلَيَّ حَيْسٌ فَخَبَأْتُ لَهُ مِنْهُ وَكَانَ يُحِبُّ الْحَيْسَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ فَخَبَأْتُ لَكَ مِنْهُ قَالَ أَدْنِيهِ أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ وَأَنَا صَائِمٌ فَأَكَلَ مِنْهُ ثُمَّ قَالَ إِنَّمَا مَثَلُ صَوْمِ الْمُتَطَوِّعِ مَثَلُ الرَّجُلِ يُخْرِجُ مِنْ مَالِهِ الصَّدَقَةَ فَإِنْ شَاءَ أَمْضَاهَا وَإِنْ شَاءَ حَبَسَهَا
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
رووزے کی نیت اور اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث (کے بیان کرنے) میں طلحہ بن یحیٰ بن طلحہ کے شاگردوں کا اختلاف
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ’’کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟‘‘ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’چلو میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔‘‘ پھر کسی اور دن میرے پاس سے گزرے۔ اتفاقاً اس وقت مجھے حیس کا تحفہ آیا ہوا تھا اور میں نے آپ کے لیے کچھ رکھ چھوڑا تھا۔ آپ حیس کو بہت پسند فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا ہے اور میں نے آپ کے لیے کچھ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’لاؤ پیش کرو۔ میں نے تو آج روزے کی نیت کر رکھی تھی۔‘‘ پھر آپ نے وہ حیس کھایا اور فرمایا: ’’نفل روزے کی مثال ایسی ہے جیسے آدمی اپنے مال سے صدقہ نکالے، پھر چاہے اسے خرچ کر دے، چاہے اپنے پاس رکھ لے۔‘‘
تشریح :
(۱) حیس یہ عربوں میں ایک معروف کھانا تھا جو کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ چونکہ کھانے مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم کے اپنے اپنے کھانے ہوتے ہین، لہٰذا دوسری زبان میں ہر کھانے کا ترجمہ ممکن نہیں، خصوصاً جبکہ یہ کھانا ہمارے ہاں تیار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کا نام کیسے ہوگا؟ (۲)نفل روزے کو بلا وجہ ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل عبادت انسان کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتی ہے۔ ایسے روزے کی قضا ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ جب اصل روزہ ہی نفل ہے تو قضا ادا کرنی کیسے واجب ہو سکتی ہے؟ البتہ جواز میں کوئی شبہ نہیں، جیسے وتر کہ نبی اکرمﷺ ان کی قضا ادا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ (۳)بعض اہل علم نے نفل روزے کی نیت کو نصف النہار سے قبل ضروری قرار دیا ہے تاکہ اکثر روزہ نیت کے ساتھ ہو اور یہ معقول بات ہے۔ (۴)نبی اکرمﷺ کائنات کے زاہد اور متقی ترین انسان تھے۔ آپ کی نظر دنیاوی ملذذات کے بجائے ہمیشہ اخروی نعمتوں پر ہوتی تھی…ﷺ… (۵) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طعام وشراب میں نبی اکرمﷺ کو یاد رکھتے تھے۔ آپﷺ کو تحفے تحائف بھیج کر اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ م ورضواعنہ۔ (۶) اچھے واعظ کی نشانی ہے کہ وہ مثالوں سے اپنی بات سامعین کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش کر دیتا ہے۔ مثال سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (۷) کوئی چیز نفلی صدقے کی نیت سے علیحدہ کرنا اور پھر اسے صدقہ نہ کرنا جائز ہے۔
(۱) حیس یہ عربوں میں ایک معروف کھانا تھا جو کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ چونکہ کھانے مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم کے اپنے اپنے کھانے ہوتے ہین، لہٰذا دوسری زبان میں ہر کھانے کا ترجمہ ممکن نہیں، خصوصاً جبکہ یہ کھانا ہمارے ہاں تیار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کا نام کیسے ہوگا؟ (۲)نفل روزے کو بلا وجہ ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل عبادت انسان کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتی ہے۔ ایسے روزے کی قضا ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ جب اصل روزہ ہی نفل ہے تو قضا ادا کرنی کیسے واجب ہو سکتی ہے؟ البتہ جواز میں کوئی شبہ نہیں، جیسے وتر کہ نبی اکرمﷺ ان کی قضا ادا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ (۳)بعض اہل علم نے نفل روزے کی نیت کو نصف النہار سے قبل ضروری قرار دیا ہے تاکہ اکثر روزہ نیت کے ساتھ ہو اور یہ معقول بات ہے۔ (۴)نبی اکرمﷺ کائنات کے زاہد اور متقی ترین انسان تھے۔ آپ کی نظر دنیاوی ملذذات کے بجائے ہمیشہ اخروی نعمتوں پر ہوتی تھی…ﷺ… (۵) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طعام وشراب میں نبی اکرمﷺ کو یاد رکھتے تھے۔ آپﷺ کو تحفے تحائف بھیج کر اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہ م ورضواعنہ۔ (۶) اچھے واعظ کی نشانی ہے کہ وہ مثالوں سے اپنی بات سامعین کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش کر دیتا ہے۔ مثال سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (۷) کوئی چیز نفلی صدقے کی نیت سے علیحدہ کرنا اور پھر اسے صدقہ نہ کرنا جائز ہے۔