سنن النسائي - حدیث 2322

كِتَابُ الصِّيَامِ إِذَا طَهُرَتْ الْحَائِضُ أَوْ قَدِمَ الْمُسَافِرُ فِي رَمَضَانَ هَلْ يَصُومُ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ صحيح أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ أَبُو حَصِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ قَالَ حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَكَلَ الْيَوْمَ فَقَالُوا مِنَّا مَنْ صَامَ وَمِنَّا مَنْ لَمْ يَصُمْ قَالَ فَأَتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ وَابْعَثُوا إِلَى أَهْلِ الْعَرُوضِ فَلْيُتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2322

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل رمضان میں دن کے وقت جب عورت حیض سے پاک ہو جائے یا مسافر گھر آ جائے تو کیا باقی دن کا روزہ رکھیں؟ حضرت محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عاشورائ رضی اللہ عنہ (دس محرم الحرام) کے دن فرمایا: ’’کیا تم میں سے کسی نے آج کھانا کھایا ہے؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: کچھ لوگوں نے روزہ رکھا ہے اور کچھ نے نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’پھر باقی دن کچھ نہ کھانا، نیز مدینہ منورہ کے قرب وجوار بستیوں میں پیغام بھیج دو کہ وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں۔‘‘
تشریح : (۱)یوم عاشوراء سے متعلق مجموعی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ فرض تھا کیونکہ رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں اس کے منتعلق حکم منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباری: ۴/ ۲۴۷) یہ اعلان آپ نے دن چڑھے فرمایا، شاید فرضیت کا حکم اسی وقت آیا ہو۔ (۲)’’باقی دن کچھ نہ کھانا‘‘ خواہ پہلے کھانا کھا ہی چکا ہو۔ اس صورت میں روزہ صحیح ہوگا، اور شرعاً قابل اعتبار، نیز اس کی جگہ بعد میں روزہ رکھنا ضروری نہیں، یہی موقف حق ہے کیونکہ اس کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں، جس روایت میں قضا کا حکم ہے وہ سنداً ناقابل حجت اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: (سنن ابی داؤد، حدیث: ۲۴۴۷) جیسے بھول کر کھانے پینے والے کا شرعاً مؤاخذہ نہیں اور نہ اس کا روزہ ہی فاسد ہوتا ہے، یہی توجیہ زیر بحث مسئلے میں ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم! امام نسائی رحمہ اللہ نے حائضہ اور مسافر کو بھی اسی پر قیاس فرمایا ہے کہ اگر دن کے دوران میں ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں، خواہ پہلے کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔ لیکن اب رکنا لازمی ہے۔ (۳)’’قرب وجوار بستیوں‘‘ عربی میں لفظ ’’عروض‘‘ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد مکہ، مدینہ اور یمن کا تمام علاقہ ہے، لیکن ظاہر ہے اس وقت یہ اعلان اتنے علاقے میں تو نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے مندرجہ بالا معنی کیے گئے کیونکہ اس وقت یہی ممکن تھا۔ (۴)طلوع فجر صادق سے قبل روزے کی نیت اس کے لیے ضروری ہے جسے علم ہو کہ صبح کو روزہ ہے۔ جسے پتا ہی دن کے وقت چلے کہ آج روزہ ہے، تو اگر اس نے طلوع فجر کے بعد اس وقت تک کچھ نہیں کھایا، وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اس کی دن کی نیت معتبر ہوگی۔ (۱)یوم عاشوراء سے متعلق مجموعی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ فرض تھا کیونکہ رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں اس کے منتعلق حکم منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباری: ۴/ ۲۴۷) یہ اعلان آپ نے دن چڑھے فرمایا، شاید فرضیت کا حکم اسی وقت آیا ہو۔ (۲)’’باقی دن کچھ نہ کھانا‘‘ خواہ پہلے کھانا کھا ہی چکا ہو۔ اس صورت میں روزہ صحیح ہوگا، اور شرعاً قابل اعتبار، نیز اس کی جگہ بعد میں روزہ رکھنا ضروری نہیں، یہی موقف حق ہے کیونکہ اس کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں، جس روایت میں قضا کا حکم ہے وہ سنداً ناقابل حجت اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: (سنن ابی داؤد، حدیث: ۲۴۴۷) جیسے بھول کر کھانے پینے والے کا شرعاً مؤاخذہ نہیں اور نہ اس کا روزہ ہی فاسد ہوتا ہے، یہی توجیہ زیر بحث مسئلے میں ہو سکتی ہے۔ واللہ اعلم! امام نسائی رحمہ اللہ نے حائضہ اور مسافر کو بھی اسی پر قیاس فرمایا ہے کہ اگر دن کے دوران میں ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں، خواہ پہلے کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔ لیکن اب رکنا لازمی ہے۔ (۳)’’قرب وجوار بستیوں‘‘ عربی میں لفظ ’’عروض‘‘ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد مکہ، مدینہ اور یمن کا تمام علاقہ ہے، لیکن ظاہر ہے اس وقت یہ اعلان اتنے علاقے میں تو نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے مندرجہ بالا معنی کیے گئے کیونکہ اس وقت یہی ممکن تھا۔ (۴)طلوع فجر صادق سے قبل روزے کی نیت اس کے لیے ضروری ہے جسے علم ہو کہ صبح کو روزہ ہے۔ جسے پتا ہی دن کے وقت چلے کہ آج روزہ ہے، تو اگر اس نے طلوع فجر کے بعد اس وقت تک کچھ نہیں کھایا، وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اس کی دن کی نیت معتبر ہوگی۔