سنن النسائي - حدیث 2320

كِتَابُ الصِّيَامِ وَضْعُ الصِّيَامِ عَنْ الْحَائِضِ صحيح أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ أَنْبَأَنَا عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ مُسْهِرٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْ عَائِشَةَ أَتَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ إِذَا طَهُرَتْ قَالَتْ أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ كُنَّا نَحِيضُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ نَطْهُرُ فَيَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّوْمِ وَلَا يَأْمُرُنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2320

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل حیض کی حالت میں (وقتی طور پر)روزہ معاف ہونا حضرت معاذہ عدویہ سے منقول ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: کیا حیض والی عورت پاک ہونے کے بعد نماز کی قضا ادا کرے گی؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: کیا تو خارجی عورت ہے؟ ہمیں بھی رسول اللہﷺ کے دور مسعود میں حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہوتی تھیں تو رسول اللہﷺ ہمیں روزوں کی قضا ادا کرنے کا حکم تو دیتے تھے مگر نماز کی قضا اد کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے۔
تشریح : (۱)حیض کی حالت میں نماز اور روزے سے شرعاً روک دیا گیا ہے۔ نماز سے تو اس لیے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے، البتہ روزے سے روکنے کی کوئی خصوصی وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر یہ مسئلہ متفق علیہ اور قطعی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ (۲)حیض ختم ہونے کے بعد فرض روزے کی قضا ادا کرنا بھی قطعی مسئلہ ہے اور متفق علیہ ہے، لہٰذا معافی سے مراد وقتی معافی ہے، البتہ نماز کی قضا نہیں، شاید اس لیے کہ مدت حیض کی تمام نمازوذں کی مہر مہینے قضا ادا کرنا عورت کے لیے شدید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے جبکہ چند روزوں کی قضا ادا کرنا سارے سال کے دوران میں آسان ہے اور شریعت لوگوں کی آسانی کو مدنظر رکھتی ہے۔ (۳)’’کیا تو خارجی عورت ہے؟‘‘ کیونکہ خوارج عورت پر حیض کے دنوں کی نمازوں کی قضا ادا کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔ ’’خاجی‘‘ فرقہ انتہائی متشدد اور دینی حکمتوں سے بے بہرہ افراد کا گروہ تھا، جو صحابہ کے دور میں ظاہر ہوا۔ یہ اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر دین اسلام کا پابند اور محافظ سمجھتا تھا حتیٰ کہ ان بے وقوف لوگوں کے ہاتھوں کئی صحابہ شہید ہوئے اور انہوں نے کثیر صحابہ پر (جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے) کفر کے فتوے لگائے۔ آخر کار امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے جنگ کرنی پڑی، تب ان کا زور ٹوٹا۔ (۴) خارجیوں کو ’’حروری‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کہ ان کے فتنے کی ابتدا کوفے کے قریب ایک بستی حرورا ء سے ہوئی۔ مجازاً پورے فرقے کو حروری کہہ لیا جاتا تھا۔ (۱)حیض کی حالت میں نماز اور روزے سے شرعاً روک دیا گیا ہے۔ نماز سے تو اس لیے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے، البتہ روزے سے روکنے کی کوئی خصوصی وجہ بیان نہیں کی گئی، مگر یہ مسئلہ متفق علیہ اور قطعی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں۔ (۲)حیض ختم ہونے کے بعد فرض روزے کی قضا ادا کرنا بھی قطعی مسئلہ ہے اور متفق علیہ ہے، لہٰذا معافی سے مراد وقتی معافی ہے، البتہ نماز کی قضا نہیں، شاید اس لیے کہ مدت حیض کی تمام نمازوذں کی مہر مہینے قضا ادا کرنا عورت کے لیے شدید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے جبکہ چند روزوں کی قضا ادا کرنا سارے سال کے دوران میں آسان ہے اور شریعت لوگوں کی آسانی کو مدنظر رکھتی ہے۔ (۳)’’کیا تو خارجی عورت ہے؟‘‘ کیونکہ خوارج عورت پر حیض کے دنوں کی نمازوں کی قضا ادا کرنا ضروری خیال کرتے تھے۔ ’’خاجی‘‘ فرقہ انتہائی متشدد اور دینی حکمتوں سے بے بہرہ افراد کا گروہ تھا، جو صحابہ کے دور میں ظاہر ہوا۔ یہ اپنے آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر دین اسلام کا پابند اور محافظ سمجھتا تھا حتیٰ کہ ان بے وقوف لوگوں کے ہاتھوں کئی صحابہ شہید ہوئے اور انہوں نے کثیر صحابہ پر (جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے) کفر کے فتوے لگائے۔ آخر کار امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے جنگ کرنی پڑی، تب ان کا زور ٹوٹا۔ (۴) خارجیوں کو ’’حروری‘‘ اس لیے کہا جاتا تھا کہ ان کے فتنے کی ابتدا کوفے کے قریب ایک بستی حرورا ء سے ہوئی۔ مجازاً پورے فرقے کو حروری کہہ لیا جاتا تھا۔