سنن النسائي - حدیث 2319

كِتَابُ الصِّيَامِ تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ{ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ } صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ قَالَ أَنْبَأَنَا وَرْقَاءُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ يُطِيقُونَهُ يُكَلَّفُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ وَاحِدٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا طَعَامُ مِسْكِينٍ آخَرَ لَيْسَتْ بِمَنْسُوخَةٍ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ لَا يُرَخَّصُ فِي هَذَا إِلَّا لِلَّذِي لَا يُطِيقُ الصِّيَامَ أَوْ مَرِيضٍ لَا يُشْفَى

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2319

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اللہ تعالیٰ کے فرمان:{ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ }کی تفسیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان:{وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} کے بارے میں منقول ہے کہ اس آیت میں {یُطِیْقُوْنَہٗ} سے مراد ہے کہ جو لوگ انتہائی مشقت محسوس کریں (یعنی انتہائی بوڑھے جن کی صحت کی امید نہیں) وہ (روزہ رکھنے کے بجائے) ایک مسکین کا کھانا بطوبر فدیہ دیں۔ اور اس سے اگلے الفاظ {فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ} ’’جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو اچھی بات ہے۔‘‘ سے مراد ہے کہ جو شخص ایک سے زائد مسکین کا کھانا فدیہ میں دے دے تو یہ بہت اچھا ہے۔ تو (اس معنی کے لحاظ سے) یہ آیت منسوخ نہیں۔ اور (انتہائی مشقت کے باوجود) کوئی شخص روزہ رکھے تو بہتر ہے، لہٰذا روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی رخصت صرف اس شخص کو ہے جو (انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے) روزہ برداشت نہیں کر سکتا۔ یا وہ مریض جس کی صحت کی کوئی امید نہیں۔
تشریح : (۱)آیت کا اصل مفہوم تو وہی ہے جو حدیث: ۲۳۱۸ کے تحت بیان ہوا مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ چونکہ ذہین شخص تھے، نیز انہیں رسول اللہﷺ کی خصوصی دعا بھی تھی، لہٰذا انہوں نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ [یُطِیْقُوْنَ] سے مراد وہ انتہائی بوڑھے یا دائمی بیمار ہیں جو روزہ برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے بعد بھی ان کے لیے قوت اور صحت کی کوئی امید نہیں تو وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ دے دیں۔ چونکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ میں الگ طور پر ثابت ہے اور لغت کی مدد سے یہ معنی اس آیت کے بھی بن سکتے ہیں، لہٰذا یہ معنی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید کی بلاغت کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ بعض آیات میں ایک جملے کے دو ایسے معنی مراد لیے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے مختلف ہیں (لیکن دونوں شرعاً صحیح ہیں) ایک معنی سیاق وسباق کے لحاظ سے اور دوسرے معنی لغت یا کسی اور لحاظ سے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ دونوں معانی الگ طور پر شرعاً ثابت ہوں اور ان کے ثبو ت کے لیے قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہوں۔ ورنہ صرف لغت یا صرف سیاق وسباق کے لحاظ سے قرآن مجید کی تفسیر کرنا جبکہ اس تفسیر کا نصوص سے تعارض ہو، تفسیر بالرائے ہے جو انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس پر ہمیشہ کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ (۲) بہر صورت اس آیت کے دونوں معانی کا نتیجہ متفق علیہ ہے کہ جو شخص روزے کی طاقت رکھتا ہے، اب وہ روزہ نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اگر پہلے معنی مراد ہیں تو یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی صراحت اسی حدیث میں ہے۔ اور اگر دوسرے معنی مراد ہیں تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اب کوئی شخص یہ نہیں کر سکتا کہ ترجمہ تو پہلی حدیث والا کرے اور دوسرے حدیث کی بنا پر اسے غیر منسوخ کہے اور ہر شخص کو روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت دے دے کیونکہ یہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے اور بددیانتی ہے۔ (۱)آیت کا اصل مفہوم تو وہی ہے جو حدیث: ۲۳۱۸ کے تحت بیان ہوا مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ چونکہ ذہین شخص تھے، نیز انہیں رسول اللہﷺ کی خصوصی دعا بھی تھی، لہٰذا انہوں نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ [یُطِیْقُوْنَ] سے مراد وہ انتہائی بوڑھے یا دائمی بیمار ہیں جو روزہ برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے بعد بھی ان کے لیے قوت اور صحت کی کوئی امید نہیں تو وہ روزہ نہ رکھیں اور فدیہ دے دیں۔ چونکہ یہ مسئلہ شریعت اسلامیہ میں الگ طور پر ثابت ہے اور لغت کی مدد سے یہ معنی اس آیت کے بھی بن سکتے ہیں، لہٰذا یہ معنی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید کی بلاغت کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ بعض آیات میں ایک جملے کے دو ایسے معنی مراد لیے جا سکتے ہیں جو ایک دوسرے مختلف ہیں (لیکن دونوں شرعاً صحیح ہیں) ایک معنی سیاق وسباق کے لحاظ سے اور دوسرے معنی لغت یا کسی اور لحاظ سے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ دونوں معانی الگ طور پر شرعاً ثابت ہوں اور ان کے ثبو ت کے لیے قرآن وحدیث میں دلائل موجود ہوں۔ ورنہ صرف لغت یا صرف سیاق وسباق کے لحاظ سے قرآن مجید کی تفسیر کرنا جبکہ اس تفسیر کا نصوص سے تعارض ہو، تفسیر بالرائے ہے جو انتہائی بڑا گناہ ہے اور اس پر ہمیشہ کے لیے جہنم کی وعید ہے۔ (۲) بہر صورت اس آیت کے دونوں معانی کا نتیجہ متفق علیہ ہے کہ جو شخص روزے کی طاقت رکھتا ہے، اب وہ روزہ نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ اگر پہلے معنی مراد ہیں تو یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی صراحت اسی حدیث میں ہے۔ اور اگر دوسرے معنی مراد ہیں تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اب کوئی شخص یہ نہیں کر سکتا کہ ترجمہ تو پہلی حدیث والا کرے اور دوسرے حدیث کی بنا پر اسے غیر منسوخ کہے اور ہر شخص کو روزہ چھوڑنے اور فدیہ دینے کی اجازت دے دے کیونکہ یہ قرآن وحدیث اور اجماع امت کے خلاف ہے اور بددیانتی ہے۔