سنن النسائي - حدیث 2318

كِتَابُ الصِّيَامِ تَأْوِيلُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ{ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ } صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ أَنْبَأَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ كَانَ مَنْ أَرَادَ مِنَّا أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2318

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اللہ تعالیٰ کے فرمان:{ وَعَلَی الَّذِینَ یُطِیقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِینٍ }کی تفسیر حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری: {وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ} ’’جو لوگ روزہ کی طاقت رکھتے ہیں وہ فدیہ دیں ایک مسکین کا کھانا۔‘‘ تو ہم میں سے جو شخص روزے نہ رکھنا چاہتا، وہ فدیہ دے دیتا حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت اتری اور اس نے اسے منسوخ کر دیا۔
تشریح : (۱)فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} ’’تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔‘‘ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ (۲)قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (۳)فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔ (۱)فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے مگر اسے فدیہ دینا پڑتا تھا، پھر بعد میں دوسری آیت اتری: {فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ} ’’تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو، وہ لازماً روزہ رکھے۔‘‘ تو اس سے فدیہ والی رخصت ختم ہوگئی اور ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہوگیا، البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہونے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی قوت وصحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ (۲)قرآن میں نسخ ثابت ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔ (۳)فرضت روزہ کا تدریجی حکم امت مسلمہ کی آسانی کے لیے تھا۔