سنن النسائي - حدیث 227

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب ذِكْرِ الْقَدْرِ الَّذِي يَكْتَفِي بِهِ الرَّجُلُ مِنْ الْمَاءِ لِلْغُسْلِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ قَالَ أُتِيَ مُجَاهِدٌ بِقَدَحٍ حَزَرْتُهُ ثَمَانِيَةَ أَرْطَالٍ فَقَالَ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ بِمِثْلِ هَذَا

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 227

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ پانی کی وہ مقدار جس پر آدمی غسل کے لیے اکتفا کر سکتا ہے موسیٰ جہجنی سے روایت ہے کہ حضرت مجاہد کے پاس ایک پیالہ لایا گیا۔ میرے اندازے کے مطابق وہ آٹھ رطل تھا۔ مجاہد کہنے لگے کہ مجھ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے۔
تشریح : (۱) آٹھ رطل عراقی صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔ (۲) اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۲۰۱، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۳۵) اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۹۴) ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بے جا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ واللہ أعلم۔ (۱) آٹھ رطل عراقی صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ حجازی صاع وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔ (۲) اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔‘‘ دیکھیے: (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۲۰۱، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: ۳۳۵) اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ (سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: ۹۴) ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بے جا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ واللہ أعلم۔