سنن النسائي - حدیث 2265

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ اسْمِ الرَّجُلِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ عَنْ شُعَيْبٍ قَالَ أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ الْهَادِ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ فِي رَمَضَانَ فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ فَصَامَ النَّاسُ فَبَلَغَهُ أَنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمْ الصِّيَامُ فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ الْمَاءِ بَعْدَ الْعَصْرِ فَشَرِبَ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ فَأَفْطَرَ بَعْضُ النَّاسِ وَصَامَ بَعْضٌ فَبَلَغَهُ أَنَّ نَاسًا صَامُوا فَقَالَ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2265

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس شخص کے نام کا ذکر(جو محمد بن عبد الرحمٰن اور حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہے) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے سال رمضان المبارک میں مکے کی طرف چلے اور روزے رکھتے رہے حتیٰ کہ کراع غمیم پہنچے۔ لوگوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ لوگوں کے لیے روزہ نبھانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ عصر کے بعد کی بات ہے۔ آپ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور پیا۔ لوگ دیکھ رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے تو روزہ کھول لیا لیکن کچھ لوگوں نے روزہ قائم رکھا۔ آپ کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ ابھی تک روزے سے ہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ’’یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
تشریح : (۱)’’یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے محسوس فرمایا کہ آج روزہ مشقت والا ہے اور مشقت والا روزہ سفر میں جائز نہیں، لہٰذا آپ نے افطار فرما لیا۔ اگرچہ آپ کو مشقت نہ تھی، تاکہ آپ کی وجہ سے کسی کو مشقت برداشت نہ کرنی پڑے اسی علت کے پیش نظر ان لوگوں کو بھی افطار کر لینا چاہیے تھا، جنہیں زیادہ مشقت نہ تھی، تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو افطار میں جھجک محسوس نہ ہو۔ جس طرح اپنی مشقت کا لحاظ ضروری ہے، اسی طرح دوسروں کی مشقت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ س بنا پر آپ نے افطار فرمایا۔ جن حضرات نے اس اصول کا لحاظ نہ رکھا بلکہ آپ کے علانیہ افطار کے باوجود فطار نہ کیا، انہوں نے فرمانی کی۔ (۲)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کا فرمان واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ کا وہ فعل جو آپ اس لیے کریں کہ لوگ بھی اس کی اقتدا کریں، بعینہٖ واجب الاتباع ہے ورنہ یہ نافرمانی ہوگی۔ (۳)رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک اور متقی بننا زبردست غلطی ہے۔ (۱)’’یہ لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ اللہ کے رسولﷺ نے محسوس فرمایا کہ آج روزہ مشقت والا ہے اور مشقت والا روزہ سفر میں جائز نہیں، لہٰذا آپ نے افطار فرما لیا۔ اگرچہ آپ کو مشقت نہ تھی، تاکہ آپ کی وجہ سے کسی کو مشقت برداشت نہ کرنی پڑے اسی علت کے پیش نظر ان لوگوں کو بھی افطار کر لینا چاہیے تھا، جنہیں زیادہ مشقت نہ تھی، تاکہ ان کی وجہ سے دوسروں کو افطار میں جھجک محسوس نہ ہو۔ جس طرح اپنی مشقت کا لحاظ ضروری ہے، اسی طرح دوسروں کی مشقت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ س بنا پر آپ نے افطار فرمایا۔ جن حضرات نے اس اصول کا لحاظ نہ رکھا بلکہ آپ کے علانیہ افطار کے باوجود فطار نہ کیا، انہوں نے فرمانی کی۔ (۲)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح آپ کا فرمان واجب الاتباع ہے، اسی طرح آپ کا وہ فعل جو آپ اس لیے کریں کہ لوگ بھی اس کی اقتدا کریں، بعینہٖ واجب الاتباع ہے ورنہ یہ نافرمانی ہوگی۔ (۳)رسول اللہﷺ سے بڑھ کر نیک اور متقی بننا زبردست غلطی ہے۔