سنن النسائي - حدیث 2256

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فِيهِ حسن أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُعَيْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بَاعَدَ اللَّهُ مِنْهُ جَهَنَّمَ مَسِيرَةَ مِائَةِ عَامٍ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2256

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس حدیث میں سفیان ثوری کے شاگردوں کے اختلاف کا بیان حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ عزوجل کے راستے میں ایک دن روزہ رکھے، اللہ تعالیٰ جہنم کو اس سے سو سال کی مسافت تک دور فرما دے گا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’سو سال‘‘ اس سے ماقبل تمام روایات میں ستر سال کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے دونوں اعداد سے معین عدد مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، یعنی بہت دور فرما دے گا۔ ستر اور سو کا عدد عرف میں کثرت کے لیے عام بولا جاتا ہے۔ ان دو عددوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسانی عمر عموماً ستر کے قریب ہوتی ہے، بہت کم ہیں جو سو سال تک پہنچیں یا اس سے تجاوز کریں۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے پہلے اجر کم تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اضافہ فرما دیا، یہ بھی کوئی بعید بات نہیں۔ (۲) اوپر والی روایات میں سال کو ’’خریف‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ سال میں موسم خریف ایک ہی ہے لہٰذا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس موسم کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عرب میں فصلوں اور پھلوں کے پکنے، کاٹنے اور توڑنے کا موسم تھا، اس لیے عرب لوگ سن ہجری کے رواج سے پہلے تاریخ میں خریف ہی کے حوالے دیا کرتے تھے۔ (۱) ’’سو سال‘‘ اس سے ماقبل تمام روایات میں ستر سال کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے دونوں اعداد سے معین عدد مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، یعنی بہت دور فرما دے گا۔ ستر اور سو کا عدد عرف میں کثرت کے لیے عام بولا جاتا ہے۔ ان دو عددوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسانی عمر عموماً ستر کے قریب ہوتی ہے، بہت کم ہیں جو سو سال تک پہنچیں یا اس سے تجاوز کریں۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے پہلے اجر کم تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اضافہ فرما دیا، یہ بھی کوئی بعید بات نہیں۔ (۲) اوپر والی روایات میں سال کو ’’خریف‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ سال میں موسم خریف ایک ہی ہے لہٰذا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس موسم کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عرب میں فصلوں اور پھلوں کے پکنے، کاٹنے اور توڑنے کا موسم تھا، اس لیے عرب لوگ سن ہجری کے رواج سے پہلے تاریخ میں خریف ہی کے حوالے دیا کرتے تھے۔