سنن النسائي - حدیث 2240

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ فِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ فِي فَضْلِ الصَّائِمِ صحيح أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي مَالِكٌ وَيُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ يُدْعَى مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ يُدْعَى مِنْ بَابِ الْجِهَادِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ يُدْعَى مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ فَهَلْ يُدْعَى أَحَدٌ مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ كُلِّهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَمْ وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2240

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل روزے کی فضیلت کے بارے میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں محمد بن یعقوب کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک جنس کی دو دو چیزیں خرچ کرے گا، اسے جنت میں آواز دی جائے گی: اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ بہت اچھا ہے (اس سے داخل ہو) جو شخص نماز سے رغبت رکھنے والا ہوگا، اسے نماز والے دروازے سے آواز دی جائے گی۔ اور جو جہاد کا شائق (جہاد کرنے والا) ہوگا اسے جہاد والے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو صدقہ کرنے کا عادی (صدقہ دینے والا) ہوگا۔ اسے صدقے والے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو روزے کا رسیا ہوگا، اسے باب ریان سے دعوت دی جائے گی۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کسی شخص کو ضرورت نہیں کہ اسے ہر دروازے سے آوازیں دی جائیں، مگر کیا کسی کو ان سب دروازوں سے بھی بلایا جائے گا؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی انہی (لوگوں) میں سے ہوگے۔‘‘
تشریح : (۱) ’’یہ دروازہ بہت اچھا ہے۔‘‘ گویا اس نیکی کے لیے ایک مخصوص دروازہ ہے جہاں سے اس کے حاملین کو عزت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد ہر اچھی جگہ بھی ہو سکتی ہے اور خاص جہاد بھی کیونکہ قرآن مجید میں فی سبیل اللہ عام طور پر جہاد کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (۲) اس حدیث میں جن میں نیکیوں (نماز، جہاد، صدقہ اور روزے) کا ذکر ہے، یہاں نفل مراد ہیں اور نفل بھی کثرت سے حتیٰ کہ وہ شخص اس نیکی میں معروف اور ممتاز ہو، ورنہ کچھ حد تک تو یہ نیکیاں ہر مسلمان میں پائی جاتی ہیں۔ (۳) ’’ہاں‘‘ ظاہر ہے جو شخص مجسمہ نیکی ہے اور نیکی میں ممتاز ہے، اس کا حق ہے کہ اسے ہر طرف سے عزت افزائی کے لیے بلایا جائے۔ لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امت میں کون اس اعزاز کا مستحق ہوگا؟ آخر وہ ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہیں۔ (۴) نیکی کے تمام اعمال ایک آدمی میں یکساں نہیں ہوتے کسی کی طرف رغبت اور رجحان زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں کم۔ (۱) ’’یہ دروازہ بہت اچھا ہے۔‘‘ گویا اس نیکی کے لیے ایک مخصوص دروازہ ہے جہاں سے اس کے حاملین کو عزت کے ساتھ داخل کیا جائے گا۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد ہر اچھی جگہ بھی ہو سکتی ہے اور خاص جہاد بھی کیونکہ قرآن مجید میں فی سبیل اللہ عام طور پر جہاد کے لیے استعمال ہوا ہے۔ (۲) اس حدیث میں جن میں نیکیوں (نماز، جہاد، صدقہ اور روزے) کا ذکر ہے، یہاں نفل مراد ہیں اور نفل بھی کثرت سے حتیٰ کہ وہ شخص اس نیکی میں معروف اور ممتاز ہو، ورنہ کچھ حد تک تو یہ نیکیاں ہر مسلمان میں پائی جاتی ہیں۔ (۳) ’’ہاں‘‘ ظاہر ہے جو شخص مجسمہ نیکی ہے اور نیکی میں ممتاز ہے، اس کا حق ہے کہ اسے ہر طرف سے عزت افزائی کے لیے بلایا جائے۔ لِمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعَامِلُوْنَ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امت میں کون اس اعزاز کا مستحق ہوگا؟ آخر وہ ثَانِیَ اثْنَیْنِ ہیں۔ (۴) نیکی کے تمام اعمال ایک آدمی میں یکساں نہیں ہوتے کسی کی طرف رغبت اور رجحان زیادہ ہوتا ہے اور کسی میں کم۔