سنن النسائي - حدیث 2218

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ الِاخْتِلَافِ عَلَى أَبِي صَالِحٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ عَنْ حَجَّاجٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ أَبِي صَالِحٍ الزَّيَّاتِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ إِذَا كَانَ يَوْمُ صِيَامِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ فَإِنْ شَاتَمَهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2218

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس حدیث میں ابو صالح کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے (اللہ تعالیٰ سے حکایت کرتے ہوئے) فرمایا: ’’انسان کا ہرعمل اس کے لیے ہے سوائے روزے کے کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ اور روزہ ڈھال ہے۔ جب کسی دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ کوئی شہوانی بات کرے، نہ شور وغل مچائے۔ اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ یا لڑائی کرے تو وہ کہہ دے: میں روزے دار ہوں۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! روزے دار کے منہ کی بو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی پاکیزہ تر ہوگی۔ روزے دار کے نصیب میں دو خوشیاں ہیں: جب روزہ کھولتا ہے تو افطار سے خوش ہوتا ہے اور جب اپنے رب تعالیٰ کو ملے گا تو اپنے روزے (کی جزا) سے خوش ہوگا۔‘‘
تشریح : (۱) ’’ہر عمل اس کے لیے ہے۔‘‘ یعنی ہر عمل میں چاہے تو وہ مخلص ہو، چاہے تو اخلاص کو ختم کر دے، اس کا مدار اسی پر ہے اور اس کا اس کو مفاد ہو سکتا ہے، مثلاً: لوگ اس کی تعریف کریں یا اس کو کچھ بدلہ وعوض دیں کیونکہ وہ اعمال لوگوں کو نظر آتے ہیں مگر روزہ تو صرف اللہ تعالیٰ کو نظر آتا ہے، لہٰذا اس کا مکمل اجر تو اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ (۲) ’’نہ شہوانی بات کرے۔‘‘ گویا یہ چیزیں روزے کی ڈھال میں سوراخ کرنے والی ہیں جس سے ڈھال ناکارہ ہو جائے گی۔ (۳) ’’وہ کہہ دے۔‘‘ یعنی لڑائی کرنے والے سے کہے تاکہ اسے شرم آئے۔ یا اپنے دل میں کہے، اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے، پہلا مفہوم الفاظ حدیث کے زیادہ قریب ہے۔ (۱) ’’ہر عمل اس کے لیے ہے۔‘‘ یعنی ہر عمل میں چاہے تو وہ مخلص ہو، چاہے تو اخلاص کو ختم کر دے، اس کا مدار اسی پر ہے اور اس کا اس کو مفاد ہو سکتا ہے، مثلاً: لوگ اس کی تعریف کریں یا اس کو کچھ بدلہ وعوض دیں کیونکہ وہ اعمال لوگوں کو نظر آتے ہیں مگر روزہ تو صرف اللہ تعالیٰ کو نظر آتا ہے، لہٰذا اس کا مکمل اجر تو اللہ تعالیٰ ہی دے گا۔ (۲) ’’نہ شہوانی بات کرے۔‘‘ گویا یہ چیزیں روزے کی ڈھال میں سوراخ کرنے والی ہیں جس سے ڈھال ناکارہ ہو جائے گی۔ (۳) ’’وہ کہہ دے۔‘‘ یعنی لڑائی کرنے والے سے کہے تاکہ اسے شرم آئے۔ یا اپنے دل میں کہے، اپنے آپ کو سمجھانے کے لیے، پہلا مفہوم الفاظ حدیث کے زیادہ قریب ہے۔