سنن النسائي - حدیث 2187

كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ اخْتِلَافِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ عَائِشَةَ فِيهِ صحيح أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَةَ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ الضُّحَى قَالَتْ لَا إِلَّا أَنْ يَجِيءَ مِنْ مَغِيبِهِ قُلْتُ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ صَوْمٌ مَعْلُومٌ سِوَى رَمَضَانَ قَالَتْ وَاللَّهِ إِنْ صَامَ شَهْرًا مَعْلُومًا سِوَى رَمَضَانَ حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ وَلَا أَفْطَرَ حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2187

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا بیان حضرت عبداللہ بن شقیق سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا: کیا رسول اللہﷺ ضحی کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں مگر یہ کہ آپ کسی سفر سے واپس تشریف لائیں۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہﷺ رمضان المبارک کے علاوہ کسی معین مہینے کے روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! آپ نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی معین مہینے کے روزے نہیں رکھے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے اور نہ آپ نے کسی مہینے کے مکمل روزے چھوڑے، بلکہ کچھ نہ کچھ روزے رکھتے تھے۔
تشریح : (۱) ’’سفر سے واپس تشریف لائیں۔‘‘ رسول اللہﷺ عموماً دن چڑھے مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور دو رکعت پڑھتے تھے، چاہے اسے نماز ضحی کہہ لیں (وقت کی رعایت سے) یا تحیۃ المسجد (موقع کی مناسبت سے)۔ (۲) حضرت عائشہؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نماز ضحی نہیں پڑھتے تھے، لیکن یہ جواب ان کے اپنے علم کے مطابق ہے۔ جن لوگوں نے آپ کو نماز ضحی پڑھتے دیکھا، انہوں نے اس کو ثابت کیا ہے، لہٰذا ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ ویسے بھی نماز ضحی کی فضیلت متعدد قولی احادیث سے ثابت ہے، اس لیے نماز ضحی کے استحباب میں کوئی شک نہیں۔ (صحیح البخاری، التہجد، حدیث: ۱۱۷۶۔ ۱۱۷۸، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۰ ۷۲۲) نہ پڑھنے سے استحباب کی نفی نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۲۱/ ۲۳-۲۶) (۱) ’’سفر سے واپس تشریف لائیں۔‘‘ رسول اللہﷺ عموماً دن چڑھے مدینہ منورہ میں داخل ہوتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور دو رکعت پڑھتے تھے، چاہے اسے نماز ضحی کہہ لیں (وقت کی رعایت سے) یا تحیۃ المسجد (موقع کی مناسبت سے)۔ (۲) حضرت عائشہؓ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نماز ضحی نہیں پڑھتے تھے، لیکن یہ جواب ان کے اپنے علم کے مطابق ہے۔ جن لوگوں نے آپ کو نماز ضحی پڑھتے دیکھا، انہوں نے اس کو ثابت کیا ہے، لہٰذا ان کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔ ویسے بھی نماز ضحی کی فضیلت متعدد قولی احادیث سے ثابت ہے، اس لیے نماز ضحی کے استحباب میں کوئی شک نہیں۔ (صحیح البخاری، التہجد، حدیث: ۱۱۷۶۔ ۱۱۷۸، وصحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، حدیث: ۷۲۰ ۷۲۲) نہ پڑھنے سے استحباب کی نفی نہیں ہوتی۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے : (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۲۱/ ۲۳-۲۶)