سنن النسائي - حدیث 2179

كِتَابُ الصِّيَامِ الِاخْتِلَافُ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ فِيهِ حسن صحيح أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ وَكَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ أَوْ عَامَّةَ شَعْبَانَ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2179

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل اس روایت میں محمد بن ابراہیم کے شاگردوں کا اختلاف(کہ بعض نے اسے حضرت ام سلمہ کی طرف منسوب کیا ہے اور بعض نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف) حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہؓ سے رسول اللہﷺ کے (نفل) روزوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہﷺ کبھی (نفل) روزے رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے تھے: آپ ناغہ نہیں کریں گے۔ اور کبھی جھوڑے رہتے حتیٰ کہ ہم کہتے: آپ روزے نہیں رکھیں گے۔ آپ سارا شعبان یا اکثر شعبان روزے رکھتے تھے۔
تشریح : (۱) نفل روزوں کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں بلکہ یہ انسان کے نشاط پر موقو ف ہے جب جی چاہے رکھے اور جتنے چاہے رکھے اور جب سستی محسوس کرے تو نہ رکھے اور جب تک چاہے ناغہ کرے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۳۵۹) (۲) شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ رمضان المبارک کی قربت ہو سکتی ہے گویا رمضان المبارک کا پڑوسی ہونے کے لحاظ سے شعبان کو بھی خصوصی فضیلت حاصل ہوگئی۔ انبیاء وصلحاء کا جوار بھی عظیم فضیلت کا سبب ہے، دنیا میں ہو، آخرت میں یا قبر میں۔ (۳) ’’سارا شعبان‘‘ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: (حدیث: ۲۱۷۷) (۱) نفل روزوں کے لیے کوئی ضابطہ مقرر نہیں بلکہ یہ انسان کے نشاط پر موقو ف ہے جب جی چاہے رکھے اور جتنے چاہے رکھے اور جب سستی محسوس کرے تو نہ رکھے اور جب تک چاہے ناغہ کرے۔ (مزید دیکھئے، حدیث: ۲۳۵۹) (۲) شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ رمضان المبارک کی قربت ہو سکتی ہے گویا رمضان المبارک کا پڑوسی ہونے کے لحاظ سے شعبان کو بھی خصوصی فضیلت حاصل ہوگئی۔ انبیاء وصلحاء کا جوار بھی عظیم فضیلت کا سبب ہے، دنیا میں ہو، آخرت میں یا قبر میں۔ (۳) ’’سارا شعبان‘‘ اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے: (حدیث: ۲۱۷۷)