كِتَابُ الصِّيَامِ ذِكْرُ حَدِيثِ أَبِي سَلَمَةَ فِي ذَلِكَ صحيح أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل
اس بارہ میں ابو سلمہ کی حدیث کا بیان
ابو سلمہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلمہؓ نے فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کو پے در پے دو ماہ کے روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک (کے روزوں) سے ملا لیتے تھے۔
تشریح :
ظاہراً اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے مگر یہ درست نہیں بلکہ آپ آخر سے چند دن ناغہ فرما لیتے تھے۔ اس بات کی صراحت آگے حدیث نمبر ۲۱۷۹ اور ۲۱۸۰ میں آرہی ہے۔ چونکہ اکثر دنوں کے روزے رکھتے تھے، لہٰذا کہہ دیا گیا کہ سارا مہینہ روزے رکھتے تھے۔ لِلْأَکْثرِ حُکْمُ الْکُلِّ عرفاً کلام میں ایسے عام ہو جاتا ہے۔
ظاہراً اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھتے تھے مگر یہ درست نہیں بلکہ آپ آخر سے چند دن ناغہ فرما لیتے تھے۔ اس بات کی صراحت آگے حدیث نمبر ۲۱۷۹ اور ۲۱۸۰ میں آرہی ہے۔ چونکہ اکثر دنوں کے روزے رکھتے تھے، لہٰذا کہہ دیا گیا کہ سارا مہینہ روزے رکھتے تھے۔ لِلْأَکْثرِ حُکْمُ الْکُلِّ عرفاً کلام میں ایسے عام ہو جاتا ہے۔