سنن النسائي - حدیث 2169

كِتَابُ الصِّيَامِ السَّحُورُ بِالسَّوِيقِ وَالتَّمْرِ صحيح الإسناد أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ عِنْدَ السُّحُورِ يَا أَنَسُ إِنِّي أُرِيدُ الصِّيَامَ أَطْعِمْنِي شَيْئًا فَأَتَيْتُهُ بِتَمْرٍ وَإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَذَّنَ بِلَالٌ فَقَالَ يَا أَنَسُ انْظُرْ رَجُلًا يَأْكُلْ مَعِي فَدَعَوْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَجَاءَ فَقَالَ إِنِّي قَدْ شَرِبْتُ شَرْبَةَ سَوِيقٍ وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُرِيدُ الصِّيَامَ فَتَسَحَّرَ مَعَهُ ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 2169

کتاب: روزے سے متعلق احکام و مسائل ستو اور کھجوروں کے ساتھ سحری کرنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے سحری کے وقت فرمایا: ’’اے انس! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، مجھے کچھ کھلاؤ۔‘‘ میں آپ کے پاس کچھ کھجوریں اور ایک پانی کا برتن لے کر آیا اور یہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اذان (اذان اول) کہنے کے بعد کی بات ہے، پھر آپ فرمانے لگے: ’’اے انس! کوئی آدمی دیکھو جو میرے ساتھ سحری کھائے۔‘‘ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلا لایا، وہ آئے اور کہنے لگے: میں نے کچھ ستو پی لیے ہیں اور میرا ارادہ روزہ رکھنے کا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میرا ارادہ بھی روزہ رکھنے کا ہے۔‘‘ تو انہوں نے آپ کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپﷺ اٹھے، دو رکعتیں پڑھیں اور پھر نماز کے لیے نکل گئے۔
تشریح : (۱)مذکورہ روایت کو مہقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دوسرے معتبر محققین کے نزدیک بعض شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲۰/ ۲۳۴، وذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۲۰/۳۷۶، ۳۷۷، وصحیح سنن النسائی للالبانی: ۲/ ۱۰۸، ۱۰۹، رقم: ۲۱۶۶) (۲)حضرت بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے چند منٹ پہلے اذان کہا کرتے تھے۔ فجر کی اذان حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے تھے جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے، لہٰذا یہ وہم نہ کیا جائے کہ شاید رسول اللہﷺ نے فجر کی اذان کے بعد سحری کھائی۔ اس حدیث میں دوسری اذان کا ذکر نہیں۔ (۱)مذکورہ روایت کو مہقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دوسرے معتبر محققین کے نزدیک بعض شواہد کی بنا پر قابل حجت ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد: ۲۰/ ۲۳۴، وذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائی: ۲۰/۳۷۶، ۳۷۷، وصحیح سنن النسائی للالبانی: ۲/ ۱۰۸، ۱۰۹، رقم: ۲۱۶۶) (۲)حضرت بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے چند منٹ پہلے اذان کہا کرتے تھے۔ فجر کی اذان حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کہتے تھے جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے، لہٰذا یہ وہم نہ کیا جائے کہ شاید رسول اللہﷺ نے فجر کی اذان کے بعد سحری کھائی۔ اس حدیث میں دوسری اذان کا ذکر نہیں۔