سنن النسائي - حدیث 215

ذِكْرُ مَا يُوجِبُ الْغُسْلَ وَمَا لَا يُوجِبُهُ بَاب الِاغْتِسَالِ مِنْ النِّفَاسِ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ حِينَ نُفِسَتْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي بَكْرٍ مُرْهَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ

ترجمہ سنن نسائی - حدیث 215

کتاب: کون سی چیزیں غسل واجب کرتی ہیں اور کون سی نہیں؟ بچے کی پیدائش کے بعد آنے والے خون پر غسل کرنا حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے حضرت اسماء بنت عمیس کے واقعہ کے بارے میں روایت ہے کہ ذوالحلیفہ میں جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’انھیں کہو کہ غسل کرکے احرام باندھیں۔‘‘
تشریح : (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلوب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہوگا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی ’’الاغتسال من النفاس‘‘ کہا ہے، یعنی خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۹۷/۴) (۲) حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احترام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔ (۱) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلوب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہوگا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی ’’الاغتسال من النفاس‘‘ کہا ہے، یعنی خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۲۹۷/۴) (۲) حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احترام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔